- Joined
- Apr 25, 2018
- Local time
- 6:49 AM
- Threads
- 208
- Messages
- 598
- Reaction score
- 977
- Points
- 460
- Gold Coins
- 429.20

شوال المکرم
سال کے بارہ مہینے ہیں اور ہر مہینے کی کچھ نہ کچھ خصوصیات ایسی ہیں، جن کی بنا پر اللہ تعالی نے ایک مہینے کو دوسرے سے ممتاز کیا ہے ماہ رواں شوال المکرم کا مہینہ ہے، شوال المکرم ہجر ی یعنی اسلامی سال کا دسواں مہینہ ہے جس کا نمبر رمضان کے بعد آتاہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ”شَوّل“سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا،کم ہونا،زائل ہونا،خشک ہونا اور گھٹنا وغیرہ
شَوّل: الشہر العاشر من الشہور القمریۃ الہجریۃ یأتی بعد رمضان وہو أول أشہر الحج ج شواویل وشواوِل وشَوّالات
معجم متن اللغۃ ش و ل
شَالَتِ النَّاقَۃُ بِذَنَبِہا
تاج العروس
مصباح اللغات
اس ماہ کی بھی کچھ خصوصیات ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں
ماہ شوال المکرم کی پہلی خصوصیت
اس مہینہ کی پہلی رات کو لیلۃالجائزہ یعنی انعام والی رات کہاجاتا ہے جس میں طبرانی میں مروی حدیث کے مطابق حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے اپنے بندوں کوبخشش کی صورت میں انعام دیا جاتا ہے
عَن سَعِیدِ بنِ أَوسٍ الأَنصَارِیِّ عَن أَبِیہِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: " إِذَا کَانَ غَدَاۃُ الفِطرِ وَقَفَتِ المَلَایئِکَۃُ فِی أَفوَاہِ الطُّرُقِ فَنَادَوا: یَا مَعشَرَ المُسلِمِینَ اغدُوا إِلَی رَبٍّ رَحِیمٍ یَمُنُّ بِالخَیرِ وَیُثِیبُ عَلَیہِ الجَزِیلَ أُمِرتُم بِصِیَامِ النَّہَارِ فَصُمتُم وَأَطَعتُم رَبَّکُم فَاقبِضُوا جَوَایئِزَکُم فَإِذَا صَلَّوُا العِیدَ نَادَی مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: ارجِعُوا إِلَی مَنَازِلِکُم رَاشِدِینَ قَد غَفَرتُ ذُنُوبَکُم کُلَّہَا وَیُسَمَّی ذَلِکَ الیَومُ فِی السَّمَاءِ یَومَ الجَایئِزَۃِ
المعجم الکبیر للطبرانی بَابُ الأَلِفِ أَوسُ بنُ الصَّامِتِ الأَنصَارِیُّ أَخُو عُبَادَۃَ بنِ الصَّامِتِ بَدرِیٌّ رَضِیَ اللہُ عَنہُ
ماہ شوال المکرم کی دوسری خصوصیت
اس مہینے کے پہلے دن کو یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں۔کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے اس طور پر کہ جنہوں نے بھی ماہ رمضان کا اہتمام کیا ہوتا ہے تو شعب الایمان بیہقی میں مروی حدیث کے مطابق اللہ تعالی ان سب کی بخشش اور مغفرت فرماتے ہیں
عَن أَنَسِ بنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: إِذَا کَانَ لَیلَۃُ القَدرِ نَزَلَ جِبرِیلُ عَلَیہِ السَّلَامُ فِی کَبکَبَۃٍ مِنَ المَلَایئِکَۃِ یُصَلُّونَ عَلَی کُلِّ عَبدٍ قَایئِمٍ أَو قَاعِدٍ یَذکُرُ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ فَإِذَا کَانَ یَومُ عِیدِہِم یَعنِی یَومَ فِطرِہِم بَاہَی بِہِم مَلَایئِکَتَہُ فَقَالَ: یَا مَلَایئِکَتِی مَا جَزَاءُ أَجِیرٍ وَفَّی عَمَلَہُ قَالُوا: رَبَّنَا جَزَاؤُہُ أَن یُوفَی أَجرَہُ قَالَ: مَلَایئِکَتِی عَبِیدِی وَإِمَایئِی قَضَوا فَرِیضَتِی عَلَیہِم ثُمَّ خَرَجُوا یِعِجُّونَ إِلَیَّ بِالدُّعَاءِ وَعِزَّتِی وَجَلَالِی وَکَرَمِی وَعُلُوِّی وَارتِفاعِ مَکَانِی لَأُجِیبَنَّہُم فَیَقُولُ: ارجِعُوا فَقَد غَفَرتُ لَکُم وَبَدَّلتُ سَیِّیئَاتِکُم حَسَنَاتٍ قَالَ: فَیَرجِعُونَ مَغفُورًا لَہُم
شعب الإیمان تاب الصیام فی لیلۃ العیدین ویومہما
ماہ شوال کی تیسری خصوصیت
ماہ شوال المکرم کا شمار اشہر حج یعنی حج کے مہینوں میں ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے
الحَجُّ أَشہُرٌ مَعلُومَاتٌ
سورۃ الانعام آیت نمبر 160
ماہ شوال کی چوتھی خصوصیت:
اس مہینے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضو ر ﷺسے ہوا تھا چنانچہ حدیث میں ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺنے شوال میں نکاح کیا اور شوال میں ہی میری رخصتی ہوئی،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پسندفرماتی تھیں کہ عورتوں کی رخصتی شوال میں ہو (آپ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں) رسول اللہ ﷺکی ازواج مطہرات میں کون سی زوجہ رسول اللہ ﷺکے نزدیک مجھ سے زیادہ خوش نصیب ثابت ہوئی
عَن عَایئِشَۃَ قَالَت: تَزَوَّجَنِی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فِی شَوَّالٍ وَأُدخِلتُ عَلَیہِ فِی شَوَّالٍ وَکَانَت عَایئِشَۃُ تُحِبُّ أَن تُدخِلَ نِسَاءَہَا فِی شَوَّالٍ فَأَیُّ نِسَایئِہِ کَانَت أَحظَی عِندَہُ مِنِّی
سنن النسایئی کِتَاب النِّکَاحِ التَّزوِیجُ فِی شَوَّالٍ
اسی وجہ سے علماء کرام نے اس ماہ یعنی شوال المکرم میں نکاح کوسنت لکھا ہے
ماہ شوال کی پانچویں خصوصیت
اس ماہ میں چھ نفلی روزے رکھے جاتے ہیں جن کے فضائل احادیث میں آرہے ہیں چنانچہ
پہلی حدیث میں ہے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔
جَابِرَ بنَ عَبدِ اللَّہِ الأَنصَارِیَّ یَقُولُ: سَمِعتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَن صَامَ رَمَضَانَ وَسِتًّا مِن شَوَّالٍ فَکَأَنَّمَا صَامَ السَّنَۃَ کُلَّہَا
مسند أحمد مخرجا مُسنَدُ جَابِرِ بنِ عَبدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنہُ
دوسری حدیث میں ہے
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایارمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں، اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں۔
عَن ثَوبَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ قَالَ: صِیَامُ رَمَضَانَ بِعَشَرَۃِ أَشہُرٍ وَصِیَامُ السِّتَّۃِ أَیَّامٍ بِشَہرَینِ فَذَلِکَ صِیَامُ السَّنَۃِ یَعنِی رَمَضَانَ وَسِتَّۃَ أَیَّامٍ بَعدَہُ
صحیح ابن خزیمۃ کِتَابُ الصِّیَامِ بَابُ ذِکرِ الدَّلِیلِ عَلَی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَعلَمَ أَنَّ صِیَامَ رَمَضَانَ وَسِتَّۃِ أَیَّامٍ مِن شَوَّالٍ یَکُونُ کَصِیَامِ الدَّہرِ إِذِ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ الحَسَنَۃَ بِعَشرِ أَمثَالِہَا أَو یَزِیدُ إِن شَاءَ اللَّہُ جَلَّ وَعَزَّ
تیسری حدیث میں ہے
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاجِس نے فِطر یعنی عیدالفطر کے بعد چھ دِن روزے رکھے اُس کا ایک سال پورا ہوا۔1715
عَن ثَوبَانَ مَولَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَن رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: مَن صَامَ سِتَّۃَ أَیَّامٍ بَعدَ الفِطرِ کَانَ تَمَامَ السَّنَۃِ
سنن ابن ماجہ کِتَابُ الصِّیَامِ بَابُ صِیَامِ سِتَّۃِ أَیَّامٍ مِن شَوَّالٍ
چوتھی حدیث میں ہے
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے۔
عَن أَبِی أَیُّوبَ الأَنصَارِیِّ رَضِیَ اللہُ عَنہُ أَنَّہُ حَدَّثَہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَن صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتبَعَہُ سِتًّا مِن شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّہرِ
صحیح مسلم کِتَاب الصِّیَامِ بَابُ استِحبَابِ صَومِ سِتَّۃِ أَیَّامٍ مِن شَوَّالٍ إِتبَاعًا لِرَمَضَانَ
پہلی تین احادیث میں شوال کے چھ روزے رکھنے کو پورے سال کے روزے رکھنے اور چوتھی حدیث میں پورے زمانے کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جب رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے تو قرآن پاک میں آتا ہے کہ
مَن جَاءَ بِالحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشرُ أَمثَالِہَا
جس نے ایک نیکی کی اسے اس کے دس گنا ملے گا
اس حساب سے ایک مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں برابر ہو جاتے ہیں،گویا رمضان اور اس کے بعدچھ روزے شوال میں رکھنے والا پورے سال کے روزوں کا مستحق بن جاتا ہے۔
اس سے مذکورہ حدیث کا مطلب واضح سمجھ میں آتا ہے کہ گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے نیز اگر مسلمان کی زندگی کا یہی معمول بن جائے کہ وہ رمضان کے ساتھ ساتھ شوال کے روزوں کو بھی مستقل رکھتا رہے تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گزاری ہو
سال کے بارہ مہینے ہیں اور ہر مہینے کی کچھ نہ کچھ خصوصیات ایسی ہیں، جن کی بنا پر اللہ تعالی نے ایک مہینے کو دوسرے سے ممتاز کیا ہے ماہ رواں شوال المکرم کا مہینہ ہے، شوال المکرم ہجر ی یعنی اسلامی سال کا دسواں مہینہ ہے جس کا نمبر رمضان کے بعد آتاہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ”شَوّل“سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا،کم ہونا،زائل ہونا،خشک ہونا اور گھٹنا وغیرہ
شَوّل: الشہر العاشر من الشہور القمریۃ الہجریۃ یأتی بعد رمضان وہو أول أشہر الحج ج شواویل وشواوِل وشَوّالات
معجم متن اللغۃ ش و ل
شَالَتِ النَّاقَۃُ بِذَنَبِہا
تاج العروس
مصباح اللغات
اس ماہ کی بھی کچھ خصوصیات ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں
ماہ شوال المکرم کی پہلی خصوصیت
اس مہینہ کی پہلی رات کو لیلۃالجائزہ یعنی انعام والی رات کہاجاتا ہے جس میں طبرانی میں مروی حدیث کے مطابق حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے اپنے بندوں کوبخشش کی صورت میں انعام دیا جاتا ہے
عَن سَعِیدِ بنِ أَوسٍ الأَنصَارِیِّ عَن أَبِیہِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: " إِذَا کَانَ غَدَاۃُ الفِطرِ وَقَفَتِ المَلَایئِکَۃُ فِی أَفوَاہِ الطُّرُقِ فَنَادَوا: یَا مَعشَرَ المُسلِمِینَ اغدُوا إِلَی رَبٍّ رَحِیمٍ یَمُنُّ بِالخَیرِ وَیُثِیبُ عَلَیہِ الجَزِیلَ أُمِرتُم بِصِیَامِ النَّہَارِ فَصُمتُم وَأَطَعتُم رَبَّکُم فَاقبِضُوا جَوَایئِزَکُم فَإِذَا صَلَّوُا العِیدَ نَادَی مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: ارجِعُوا إِلَی مَنَازِلِکُم رَاشِدِینَ قَد غَفَرتُ ذُنُوبَکُم کُلَّہَا وَیُسَمَّی ذَلِکَ الیَومُ فِی السَّمَاءِ یَومَ الجَایئِزَۃِ
المعجم الکبیر للطبرانی بَابُ الأَلِفِ أَوسُ بنُ الصَّامِتِ الأَنصَارِیُّ أَخُو عُبَادَۃَ بنِ الصَّامِتِ بَدرِیٌّ رَضِیَ اللہُ عَنہُ
ماہ شوال المکرم کی دوسری خصوصیت
اس مہینے کے پہلے دن کو یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں۔کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے اس طور پر کہ جنہوں نے بھی ماہ رمضان کا اہتمام کیا ہوتا ہے تو شعب الایمان بیہقی میں مروی حدیث کے مطابق اللہ تعالی ان سب کی بخشش اور مغفرت فرماتے ہیں
عَن أَنَسِ بنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: إِذَا کَانَ لَیلَۃُ القَدرِ نَزَلَ جِبرِیلُ عَلَیہِ السَّلَامُ فِی کَبکَبَۃٍ مِنَ المَلَایئِکَۃِ یُصَلُّونَ عَلَی کُلِّ عَبدٍ قَایئِمٍ أَو قَاعِدٍ یَذکُرُ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ فَإِذَا کَانَ یَومُ عِیدِہِم یَعنِی یَومَ فِطرِہِم بَاہَی بِہِم مَلَایئِکَتَہُ فَقَالَ: یَا مَلَایئِکَتِی مَا جَزَاءُ أَجِیرٍ وَفَّی عَمَلَہُ قَالُوا: رَبَّنَا جَزَاؤُہُ أَن یُوفَی أَجرَہُ قَالَ: مَلَایئِکَتِی عَبِیدِی وَإِمَایئِی قَضَوا فَرِیضَتِی عَلَیہِم ثُمَّ خَرَجُوا یِعِجُّونَ إِلَیَّ بِالدُّعَاءِ وَعِزَّتِی وَجَلَالِی وَکَرَمِی وَعُلُوِّی وَارتِفاعِ مَکَانِی لَأُجِیبَنَّہُم فَیَقُولُ: ارجِعُوا فَقَد غَفَرتُ لَکُم وَبَدَّلتُ سَیِّیئَاتِکُم حَسَنَاتٍ قَالَ: فَیَرجِعُونَ مَغفُورًا لَہُم
شعب الإیمان تاب الصیام فی لیلۃ العیدین ویومہما
ماہ شوال کی تیسری خصوصیت
ماہ شوال المکرم کا شمار اشہر حج یعنی حج کے مہینوں میں ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے
الحَجُّ أَشہُرٌ مَعلُومَاتٌ
سورۃ الانعام آیت نمبر 160
ماہ شوال کی چوتھی خصوصیت:
اس مہینے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضو ر ﷺسے ہوا تھا چنانچہ حدیث میں ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺنے شوال میں نکاح کیا اور شوال میں ہی میری رخصتی ہوئی،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پسندفرماتی تھیں کہ عورتوں کی رخصتی شوال میں ہو (آپ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں) رسول اللہ ﷺکی ازواج مطہرات میں کون سی زوجہ رسول اللہ ﷺکے نزدیک مجھ سے زیادہ خوش نصیب ثابت ہوئی
عَن عَایئِشَۃَ قَالَت: تَزَوَّجَنِی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فِی شَوَّالٍ وَأُدخِلتُ عَلَیہِ فِی شَوَّالٍ وَکَانَت عَایئِشَۃُ تُحِبُّ أَن تُدخِلَ نِسَاءَہَا فِی شَوَّالٍ فَأَیُّ نِسَایئِہِ کَانَت أَحظَی عِندَہُ مِنِّی
سنن النسایئی کِتَاب النِّکَاحِ التَّزوِیجُ فِی شَوَّالٍ
اسی وجہ سے علماء کرام نے اس ماہ یعنی شوال المکرم میں نکاح کوسنت لکھا ہے
ماہ شوال کی پانچویں خصوصیت
اس ماہ میں چھ نفلی روزے رکھے جاتے ہیں جن کے فضائل احادیث میں آرہے ہیں چنانچہ
پہلی حدیث میں ہے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔
جَابِرَ بنَ عَبدِ اللَّہِ الأَنصَارِیَّ یَقُولُ: سَمِعتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَن صَامَ رَمَضَانَ وَسِتًّا مِن شَوَّالٍ فَکَأَنَّمَا صَامَ السَّنَۃَ کُلَّہَا
مسند أحمد مخرجا مُسنَدُ جَابِرِ بنِ عَبدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنہُ
دوسری حدیث میں ہے
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایارمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں، اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں۔
عَن ثَوبَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ قَالَ: صِیَامُ رَمَضَانَ بِعَشَرَۃِ أَشہُرٍ وَصِیَامُ السِّتَّۃِ أَیَّامٍ بِشَہرَینِ فَذَلِکَ صِیَامُ السَّنَۃِ یَعنِی رَمَضَانَ وَسِتَّۃَ أَیَّامٍ بَعدَہُ
صحیح ابن خزیمۃ کِتَابُ الصِّیَامِ بَابُ ذِکرِ الدَّلِیلِ عَلَی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَعلَمَ أَنَّ صِیَامَ رَمَضَانَ وَسِتَّۃِ أَیَّامٍ مِن شَوَّالٍ یَکُونُ کَصِیَامِ الدَّہرِ إِذِ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ الحَسَنَۃَ بِعَشرِ أَمثَالِہَا أَو یَزِیدُ إِن شَاءَ اللَّہُ جَلَّ وَعَزَّ
تیسری حدیث میں ہے
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاجِس نے فِطر یعنی عیدالفطر کے بعد چھ دِن روزے رکھے اُس کا ایک سال پورا ہوا۔1715
عَن ثَوبَانَ مَولَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَن رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: مَن صَامَ سِتَّۃَ أَیَّامٍ بَعدَ الفِطرِ کَانَ تَمَامَ السَّنَۃِ
سنن ابن ماجہ کِتَابُ الصِّیَامِ بَابُ صِیَامِ سِتَّۃِ أَیَّامٍ مِن شَوَّالٍ
چوتھی حدیث میں ہے
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے۔
عَن أَبِی أَیُّوبَ الأَنصَارِیِّ رَضِیَ اللہُ عَنہُ أَنَّہُ حَدَّثَہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَن صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتبَعَہُ سِتًّا مِن شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّہرِ
صحیح مسلم کِتَاب الصِّیَامِ بَابُ استِحبَابِ صَومِ سِتَّۃِ أَیَّامٍ مِن شَوَّالٍ إِتبَاعًا لِرَمَضَانَ
پہلی تین احادیث میں شوال کے چھ روزے رکھنے کو پورے سال کے روزے رکھنے اور چوتھی حدیث میں پورے زمانے کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جب رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے تو قرآن پاک میں آتا ہے کہ
مَن جَاءَ بِالحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشرُ أَمثَالِہَا
جس نے ایک نیکی کی اسے اس کے دس گنا ملے گا
اس حساب سے ایک مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں برابر ہو جاتے ہیں،گویا رمضان اور اس کے بعدچھ روزے شوال میں رکھنے والا پورے سال کے روزوں کا مستحق بن جاتا ہے۔
اس سے مذکورہ حدیث کا مطلب واضح سمجھ میں آتا ہے کہ گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے نیز اگر مسلمان کی زندگی کا یہی معمول بن جائے کہ وہ رمضان کے ساتھ ساتھ شوال کے روزوں کو بھی مستقل رکھتا رہے تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گزاری ہو
Previous thread
Next thread