PakArt UrduLover
Thread Starter

in memoriam 1961-2020، May his soul rest in peace


Charismatic
Designer
Expert
Writer
Popular
ITD Observer
ITD Solo Person
ITD Fan Fictionest
ITD Well Wishir
ITD Intrinsic Person
Persistent Person
ITD Supporter
Top Threads Starter
- Joined
- May 9, 2018
- Local time
- 1:30 PM
- Threads
- 1,354
- Messages
- 7,658
- Reaction score
- 6,967
- Points
- 1,508
- Location
- Manchester U.K
- Gold Coins
- 124.10

صحافت میں گند
1
1
جب کسی چیز کی بہتات ہوجائے تو اچھی چیز میں سڑاند کا پیداہونا ایک قدرتی امر ہے ابن خلدون نے تہذیبوں کے عروج و زوال کو موسموں کی تبدیلی سے تشبیہ دی ہے جبکہ ساڑھے تین سوسال قبل مسیح میں پیداہونے والے چانکیہ کو تیلیانے انسانوں کو پیریش ایبل کموڈیٹی یعنی گل سڑھ جانے والی اشیاء میں شا مل کیا ہے۔ ذولقدرخان تاتاری ایک سفاک اور ظالم جرنیل اور بے رحم حکمران تھا۔ وہ جنگ پر جانے سے پہلے ہر سپاہی سے ملتا اور ایک ہی سوال پوچھتا کہ تمہیں کس چیز سے محبت ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر سپاہی کا جواب الگ ہو تا ۔ کوئی ماں کانام لیتا ، کوئی باپ کا ، کوئی بچوں کا ، کوئی بادشاہ کا مگر جو سپاہی تلوار سے محبت کا اظہارکر تا وہ ذوالقدر خان جسے تاریخ میں ذولچو خان بھی لکھا گیا کے خاص دستے میں شامل ہوتا جو بادشاہ کی حفاظت کے لیے چنا جاتا ۔ ذوالقدر خان عجیب ذہنیت کا حامل تھاجس قدر وہ سفاک تھا اسی قدر و ہ عالم بھی تھا اور علماء کی قدر کرتاتھا ۔ اُسکا کہناتھا کہ تلوار نیام میں ہو تو اُسے زنگ لگ جاتا ہے ، سیاہی دوات میں رہے تو گند بن جاتا ہے سیاہی اوراق پراور تلوار ہاتھ میں اچھی لگتی ہے۔ ننگی تلوار سپاہی کی مردانگی اور اورا ق پربکھری سیاہی لکھنے والے کی ذہنیت کواجاگر کرتے ہیں۔ ابن خلدون کے اقوال پر تبصرہ کرتے ہوئے ولی کاشمیری لکھتے ہیں کہ جسطرح چار موسم زمین پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی طرح انسانی تمدن کے بھی چار ادوار ہیں ۔ قرآن کریم میں بیان ہے کہ پہلے تم بچپن کی عمر میں ہوتے ہو،پھر جوانی اورآخر میں بڑھاپا دیکھ کر موت کی وادی میں منتقل ہوجاتے ہو۔ ولی اﷲ کاشمیری فرماتے ہیں کہ ابن خلدون اور دیگر مفکرین میں یہ فرق ہے کہ وہ اسلام اور قرآن سے رہنمائی لیتا ہے جبکہ دیگر حکماء قیاس اور اختراع کا سہارا لیتے ہیں ۔ ولی کے مطابق قیاس اور اختراع سطحی ذہن کے حامل فریب خوردہ جاہلوں کا وطیرہ ہے جو خزان یعنی زوال کا نشان ہے ۔ گو کہ یہ اشارہ اہل یہود کی طرف ہے کہ ایسے عالموں کی مثال اُس گدھے جیسی ہے جس پر بہت سی کتابیں لاددی جائیں یعنی گدھا کتابوں کو بوجھ اُٹھانے سے عالم نہیں بن جاتا ۔ہم اگر اپنے ملکی میڈیا کوسچائی کی آنکھ سے دیکھیں تو ایسے حیوانات کی بڑی تعدادصحافت کے مقدس پیشے سے منسلک محض باربرادری کا بھاری معاوضہ لیکر دولتیاں مارنے اور گند پھیلانے میں مصروف ہے۔ چانکیہ کے بعد ایک ہند و دانشور ، شاعر ، فلسفی اور تاریخ دان پنڈت کلہن بھی ہو گزرا ہے جسکی مرتب کردہ تاریخ راج ترنگنی عالمی شہرت یافتہ ہے ۔راج ترنگنی کا سنسکرت سے ہندی اور پھر اُردو ترجمہ ٹھا کر اچھر چند شاہ پوریہ نے کیا ہے ۔ اس ترجمہ کے مطابق راج ترنگنی میں مذکورہ تیس سے زیادہ کشمیری حکمرانوں کا ذکر بوجہ نہیں ہو سکا کچھ عرصہ قبل ایک ہندو تاریخ دان جون راج کا ترجمہ سامنے آیا ہے جسے جون راج ترنگنی کہا جاتا ہے۔ علاوہ اس کے کلہن کے اشعار کا ترجمہ بھی ہے جسکا خالق ہر چند کا ٹھیہ ہے ۔ کاٹھیہ کے مطابق کلہن نے انسانی سوچ کوہی تہذیب کی عظمت قرار دیا ہے کلہن کہتا ہے کہ سو چ و چار ساری قوم کا کام نہیں ۔ عام لوگ مختلف پیشوں سے منسلک ہوتے ہیں اور وہ دوسری اقوام اور ملکوں سے روابط بڑھاتے ہیں اور اپنی بہترین مصنوعات اُن کو فروخت کرتے ہیں۔ وہ دوسروں ملکوں سے نئی نئی چیزیں لا کر اپنی قوم کا شعور بڑھاتے ہیں ۔ اسطرح وہ مختلف زبانیں سیکھتے ہیں ، رسم و روج او رمذاہب کا بھی مطالعہ کرتے ہیں ۔ وہ اخلاق اور اعلیٰ اقدار کے ذریعے اپنی ثقافت ، روایات کا بھی پرچار کرتے ہیں ۔ کلہن کے مطابق ہر تاجر اور صنعت کا ر کو اپنے پیشے پر توجہ دینی چائیے ۔ تاجروں اور پیشہ ور خاندانوں کو فوج سیاست ، تعلیم اور دیگر شعبوں سے دور کیا جائے اور کوئی تاجر یا اہل حرفہ اپنا پیشہ چھوڑ کر کسی دوسرے پیشے کا رخ کرے تو اُسے کڑی سزا دی جائے۔ ایک جگہ لکھتا ہے کہ ان کا مال و اساب ضبط کیا جائے ان کے گھر جلا دیے جائیں اور انہیں ملک بدر کر دیاجائے۔ کلہن اور کاٹھیہ تاجروں کو بہترین سفارتکار قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر تاجر بادشاہ ، جرنیل یا معلم بن جائے تو وہ ملک فروخت کر دیگا، فوج میں بغاوت ہو گی اور علم کی ہیئت بدل جائے گی ۔ عوام مفلس ہو جائے گی ، ملکی دفاع کمزور ہو گا، فوج بد دل بیکار ہوجائے گی اور علم سطحی ، فروعی اور فرسودہ روایات تک محدود ہو کر گندی ذہنیت اور سوچ کے حامل پر چارک پیدا کر نے کا موجب بنے گا۔ جس قوم کے پرچارک بادشاہ ، فوج اورعلم کو فرسودہ اور بیکار ثابت کرنے پر لگ جائیں وہ جلد ہی قوم کے زوال کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسی ذہنیت کے حامل عالموں پر دشمن قوم اور ملک کے کارندے دولت نچھاور کرتے ہیں اور مدمقابل اقوام کے زوال کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو آج ہمار املک پوری طرح اس بیماری کے شکنجے میں آچکا ہے ۔ تا جر پیشہ لوگ جمہوریت کی آڑ میں ہر سطح کے حکمران ہیں اور ملکی خزاانہ لوٹ رہے ہیں ۔ ملکی دفاع کمزو رہورہا ہے اور عوام سے لوٹا ہوا مال بیرون ملک منتقل کیا جا رہا ہے ۔ ملکی قومی سلامتی اور معاون ادارے ایک منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیے جا رہے ہیں تعلیم تجارت بن گئی ہے اور عوام غربت اور مفلسی کی زندگی جی رہی ہے ۔ فرسودہ اور گھٹیا ذہنیت کے حامل پر چارکوں کو موجودہ دور میں صحافی اینکر، مبصر، تجزیہ نگار اور دانشور کہاجاتا ہے جو فوج پر تنقید کرنے اور اُس کے حوصلے پست کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ اس سال چھ ستمبر کا دن کچھ ایسے ہی دماغوں پر بوجھ بن گیا جو 23مارچ،14اگست اور 6ستمبر جیسی تقریبات کے منسوخ ہونے پر خوش تھے۔ میرے پاس بظاہر کوئی ثبوت نہیں کہ میں ان رسیاذھنوں پر الزام لگاؤں کہ یہ بھارت یا کسی اور ملک دشمن کے وظیفہ خوار ہیں مگر یہ بات سب پر عیاں ہے کہ یہ پرچارک بھارت کی محبت میں بہر حال گرفتار ہیں ۔ ایک ہلکانے والے صحافی اور اینکر صاحب جب سے امریکہ جانے لگے ہیں ان کے اطوا ربتلاتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی کے دام میں ہیں ۔ اس سال چھ ستمبر سے پہلے ہی انہوں نے 1965ء کی جنگ کا فاتح بھارت کو قرار دینا شروع کردیا اور اپنی دانشوری سے پاکستان کو شکست خوردہ قوم قرار دیا۔ جناب چاڑہ صاحب نے اپنی سوچ کا وزن بھارت کے پلڑے میں رکھا اور دلیلوں سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاک فوج نے 1965ء میں شکست کھائی ۔ مجھے یہ کہنے پر کوئی جھجک نہیں کہ یہ ایک گندی اور گھٹیا سوچ ہے جو ملک دشمنی کی عکاس ہے۔ہکلانے ولاے کو پشتو زبان میں چاڑہ ، پنجابی میں تھتھا اور اردو میں ہکلا کہتے ہیں۔ دیہاتی ضر ب المثل ہے تھتھی رن وفادار نہیں ہوتیــ ۔ اگر ایسا ہی ہے تو تھتھا مرد بھی کسی سے کم نہیں ہوتا جبکہ تھتھا صحافی تو کسی صورت قابل اعتماد نہیں ہو سکتا ۔ میں مشہور صحافی ، دانشور ، مصنف ، کالم نگار اور اینکر جناب چاڑہ صاحب سے درخواست کر ونگا کہ وہ فتح وشکست کو پڑھیں اور عالمی جنگوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں کہ فتح و شکست کیا چیز ہوتی ہے ۔ 1965ء کی جنگ کا آغاز بھارت نے رن آف کچھ سے شروع کیا جو لارڈ ویول کے فارمولے پر مبنی سندھ کو پاکستان سے الگ کرنے کا منصوبہ تھا۔ بھارت کی ایک ڈویژن میکانا ئیزڈ یلغار کے مقابلے میں پاکستان آرمی کا ایک بریگیڈ گروپ تھا جس نے بھارتی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا صحرائی قبرستان بنا کر فتح کا جھنڈ ا گاڑھا۔ اگر آپ کو ہلکانے ، سیکنڈل اور سٹوریاں تلاشنے سے فرصت ملے تو جنرل نادر پرویز سے ضرور ملیں چونکہ لیفٹنٹ نادر پرویزرن کا آف کچھ کا نو عمرہ اور نو خیز ہیر و تھا ۔ لیفٹینٹ نادر پرویز کو دلیرانہ معرکوں کے صلے میں ستارہ جرات سے نوازا گیا ۔ بقول کرنل سکندر خان بلوچ کے ، ملٹری اکیڈیمی کا کول میں نادر پرویز کے ایکشن کی خبر پہنچی توہر کیڈٹ میدان جنگ میں جانے کے لیے تڑپنے لگا چونکہ چندماہ پہلے ہی وہ اکیڈیمی سے پاس آؤٹ ہو کر گیا تھانادر پرویز کوسینکڑوں کیڈٹ جانتے تھے اور اب اس کی طرح میدان جنگ میں جانے کے لیے بیتاب تھے۔ لیفٹینٹ نادر پرویز جو چند ماہ پہلے اُنکا سینئر کیڈٹ تھا اب اُن کا ہیرو تھا۔ ہر کیڈٹ نے نادر پرویز کو خط لکھا ، اُسے داد دی ، اسپر فخر کیا اور اُس کی طرح میدان جنگ میں جانے کا اظہار بھی کیا۔ |
Previous thread
Next thread