محترم اس سے کل مدت قصر پر استدلال نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اس روایت سے ایک مقام پر ارادہ بنا کر ٹھہرنے کی صورت ثابت نہیں ہورہی ہے اور یہ اس کے سیاق سے واضح ہے یعنی اس روایت میں اس تردد کی صورت بیان ہورہی ہے کہ جس میں بندہ کی کچھ نیت ہی نہ ہو، بلکہ آج، کل میں اس کا ارادہ وہاں سے چلے جانے کا ہو مگر وہ اسی پس و پیش اس کے اتنے دن گذر جائے۔۔ یعنی کوئی مدت معین بیان نہیں ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس روایت سے کسی بھی محدث نے کل مدت قصر پر استدلال نہیں کیا نیز چاروں بڑے فقہاء کرام اور ان کے مقلدین بھی اس سے کل مدت قصر پر استدلال نہیں کرتے ہیں ۔ بلکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے مقلدین کے نزدیک مدتِ قصر پندرہ دن تک ہے اگر کوئی شخص پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کا ارادہ کر لے تو اس کو پوری نماز پڑھنی ہو گی۔ جبکہ ائمہ ثلاثہ (امام شافعی، امام مالک اور امام احمد) اور ان کے مقلدین کے نزدیک مدتِ قصر چار روز تک ہے۔ اگر کوئی شخص چار روز یا اس سے زیادہ قیام کا ارادہ کرے گا تو اس کو پوری نماز پڑھنی ہوگی۔ اور اس پر چاروں کے پاس احادیث سے دلائل موجود ہیں
چنانچہ احناف کے دلائل یہ ہیں
حضرت عمر بن ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے مجاہد رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضی الله عنهما إِذَا قَدِمَ مَکَّةَ فَأَرَادَ أَنْ يُقِيمَ خَمْسَ عَشْرَةَ لَيْلَةً سَرَّحَ ظَهَرَهُ، فَأَتَمَّ الصَّلَاةَ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما جب مکہ جاتے اور پندرہ دن قیام کا ارادہ کرتے تو اپنی پشت کھول دیتے اور پوری نماز پڑھتے۔‘‘
عبد الرزاق، المصنف، 2: 534، رقم: 4343
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا اگر کوئی شخص تین دن یا اس سے زیادہ کی مسافت طے کر کے اس شہر میں پہنچ جائے جس کے لئے اس نے سفر کیا تھا تو کیا وہ پوری نماز پڑھے گا؟ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اگر اس کی نیت پندرہ دن قیام کی ہے تو نماز پوری پڑھے گا اور اگر اس کو پتا نہ ہو کہ وہ کب تک قیام کرے گا تو قصر کرے۔ میں نے پوچھا آپ نے پندرہ دن کس دلیل سے متعین کئے ہیں؟ فرمایا: حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے۔‘‘
محمد بن حسن شيباني، المبسوط، 1: 266
اور ائمہ ثلاثہ کی دلیل یہ روایت ہے کہ
جابر اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم حجۃ الوداع كے موقع پر چار ذوالحجہ كى صبح مكہ پہنچے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چار، پانچ، چھ اور سات كى اقامت اختيار كى اور آٹھ كى فجر نماز ابطح ميں ادا كى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان ايام ميں نماز قصر كرتے رہے"