- Joined
- Apr 25, 2018
- Local time
- 9:24 AM
- Threads
- 211
- Messages
- 612
- Reaction score
- 989
- Points
- 460
- Gold Coins
- 432.01

چاند ہماری زمین کا ایک سیارچہ ہے۔ زمین سے کوئی2.40.000میل دور ہے۔چاند زمین کے گرد اوسطا 27 دن ،7 گھنٹے اور 43 منٹ میں دورہ پورا کرتا ہے اس کو نجمی مہینہ کہتے ہیں ۔وجہ تسمیہ ا س کی یہ ہے کہ نیا چاند جن تاروں کے درمیان آج موجود ہے ۔ٹھیک 27 دن ، 7گھنٹےاور 43 منٹ دوبارہ اس جگہ پہنچ جائے گا ۔گویا کہ چاند نے تو ستاروں کے حساب سے دورہ پورا کرلیا لیکن زمین کی سالانہ حرکت کے سبب سورج ان ستاروں میں نہیں رہے گا بلکہ کچھ آگے نکل گیا ہوگا ۔
لہٰذا اَب چاند کو ہر ماہ 27 درجے کا اِضافی فاصلہ بھی طے کرنا ہوگا۔ گویا ستاروں کی پوزیشن کے حوالے سے تو چاند کا ایک چکر 360 درجے ہی کا ہوتا ہے مگر زمین کے سورج کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے اُس میں 27 درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اُسے زمین کے گرد اپنے ایک چکر کو پورا کرنے کے لئے 387 درجے کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ 27 درجے کی اِضافی مسافت طے کرنے میں اُسے مزید وقت درکار ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قمری ماہ کی مدّت 27 دن، 7 گھنٹے، 43منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی بجائے 29 دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ قرار پاتی ہے۔ 29 دن اور 12 گھنٹے کی وجہ سے چاند 29 یا 30 دنوں میں ایک مہینہ بناتا ہے اور باقی 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ کی وجہ سے سالوں میں کبھی دو ماہ مسلسل 30 دنوں کے بن جاتے ہیں اور یہ فرق بھی خود بخود فطری طریقے سے پورا ہو جاتا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے اُس میں کوئی ردّوبدل نہیں کرنا پڑتا۔
لہٰذا اَب چاند کو ہر ماہ 27 درجے کا اِضافی فاصلہ بھی طے کرنا ہوگا۔ گویا ستاروں کی پوزیشن کے حوالے سے تو چاند کا ایک چکر 360 درجے ہی کا ہوتا ہے مگر زمین کے سورج کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے اُس میں 27 درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اُسے زمین کے گرد اپنے ایک چکر کو پورا کرنے کے لئے 387 درجے کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ 27 درجے کی اِضافی مسافت طے کرنے میں اُسے مزید وقت درکار ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قمری ماہ کی مدّت 27 دن، 7 گھنٹے، 43منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی بجائے 29 دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ قرار پاتی ہے۔ 29 دن اور 12 گھنٹے کی وجہ سے چاند 29 یا 30 دنوں میں ایک مہینہ بناتا ہے اور باقی 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ کی وجہ سے سالوں میں کبھی دو ماہ مسلسل 30 دنوں کے بن جاتے ہیں اور یہ فرق بھی خود بخود فطری طریقے سے پورا ہو جاتا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے اُس میں کوئی ردّوبدل نہیں کرنا پڑتا۔
Previous thread
Next thread