- Joined
- May 5, 2018
- Local time
- 1:41 AM
- Threads
- 187
- Messages
- 5,154
- Reaction score
- 6,674
- Points
- 1,235
- Location
- آئی ٹی درسگاہ
- Gold Coins
- 1,414.60

بچ کر چلئے
ایک راستہ ہے اس میں کانٹے دار جھاڑیاں ہیں ، ایک آدمی بے احتیاطی کے ساتھ راستہ میں گھس جاتا ہے ، اس کے جسم میں کانٹے چبھ جاتے ہیں ،کپڑا پھٹ جاتا ہے ، اپنی منزل پر پہنچنے میں اس کو تاخیر ہوجاتی ہے ، اس کا ذہنی سکون درہم برہم ہوجاتاہے، اب وہ آدمی کیا کرے گا ،کیا وہ کانٹے کے خلاف ایک کانفرنس کرے گاکانٹے کے بارے میں دھواں دھار بیانات شائع کرے گا ، وہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کرے گا کہ دنیا کے تمام درختوں سے کانٹے کا وجود ختم کردیا جائے تاکہ آئندہ کوئی مسافر کانٹے کے مسئلہ سے دوچار نہ ہو۔
کوئی سنجیدہ اور باہوش انسان کبھی ایسا نہیں کرسکتا اس کے برعکس وہ صرف یہ کرے گا کہ وہ اپنی نادانی کا احساس کرے گا اپنے آپ سے کہے گا کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے جب دو آنکھیں دی تھیں تو تم نے کیوں ایسا نہ کیا کہ تم کانٹوں سے بچ کر چلتے۔۔
تم نے اپنا دامن سمیٹ کر کانٹے والے راستہ سے نکل جاتے اس طرح تمہارا جسم بھی کانٹوں سے محفوظ رہتا اور تم کو اپنی منزل تک پہنچنے میں دیر بھی نہ لگتی ۔
اللہ تعالیٰ نے درختوں کی دنیا میں یہ مثال رکھی تھی تاکہ انسانوں کی دنیا میں سفر کرتے ہوئے اس سے سبق لیا جائے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی اس نشانی کو کسی نہیں پڑھا۔
آج کی دنیا میں آپ کو بے شمار ایسے لوگ ملیں گے جو انسانی کانٹوں کے درمیان بے احتیاطی کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور جب کانٹے ان کے جسم سے لگ کر انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں تو وہ ایک لمحہ سوچے بغیر خود کانٹوں کو برا کہنا شروع کردیتے ہیں ، وہ اپنی نادانی کو دوسروں کے خانہ میں ڈالنے کی بے فائدہ کوشش کرنے لگتے ہیں ، ایسے تمام لوگوں کو جاننا چائیے کہ جسطرح درختوں کی دنیا سے کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں اسی طرح سماجی دنیا سے بھی کانٹے دار انسان کبھی ختم نہ ہوں گے ،یہاں تک کہ قیامت آجائے ۔
اس دنیا میں محفوظ اور کامیاب زندگی کا راز کانٹے دار انسانوں سے بچ کر چلنا ہے ،اس کے سواہر دوسرا طریقہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والا ہے ، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اقتباس
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک راستہ ہے اس میں کانٹے دار جھاڑیاں ہیں ، ایک آدمی بے احتیاطی کے ساتھ راستہ میں گھس جاتا ہے ، اس کے جسم میں کانٹے چبھ جاتے ہیں ،کپڑا پھٹ جاتا ہے ، اپنی منزل پر پہنچنے میں اس کو تاخیر ہوجاتی ہے ، اس کا ذہنی سکون درہم برہم ہوجاتاہے، اب وہ آدمی کیا کرے گا ،کیا وہ کانٹے کے خلاف ایک کانفرنس کرے گاکانٹے کے بارے میں دھواں دھار بیانات شائع کرے گا ، وہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کرے گا کہ دنیا کے تمام درختوں سے کانٹے کا وجود ختم کردیا جائے تاکہ آئندہ کوئی مسافر کانٹے کے مسئلہ سے دوچار نہ ہو۔
کوئی سنجیدہ اور باہوش انسان کبھی ایسا نہیں کرسکتا اس کے برعکس وہ صرف یہ کرے گا کہ وہ اپنی نادانی کا احساس کرے گا اپنے آپ سے کہے گا کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے جب دو آنکھیں دی تھیں تو تم نے کیوں ایسا نہ کیا کہ تم کانٹوں سے بچ کر چلتے۔۔
تم نے اپنا دامن سمیٹ کر کانٹے والے راستہ سے نکل جاتے اس طرح تمہارا جسم بھی کانٹوں سے محفوظ رہتا اور تم کو اپنی منزل تک پہنچنے میں دیر بھی نہ لگتی ۔
اللہ تعالیٰ نے درختوں کی دنیا میں یہ مثال رکھی تھی تاکہ انسانوں کی دنیا میں سفر کرتے ہوئے اس سے سبق لیا جائے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی اس نشانی کو کسی نہیں پڑھا۔
آج کی دنیا میں آپ کو بے شمار ایسے لوگ ملیں گے جو انسانی کانٹوں کے درمیان بے احتیاطی کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور جب کانٹے ان کے جسم سے لگ کر انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں تو وہ ایک لمحہ سوچے بغیر خود کانٹوں کو برا کہنا شروع کردیتے ہیں ، وہ اپنی نادانی کو دوسروں کے خانہ میں ڈالنے کی بے فائدہ کوشش کرنے لگتے ہیں ، ایسے تمام لوگوں کو جاننا چائیے کہ جسطرح درختوں کی دنیا سے کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں اسی طرح سماجی دنیا سے بھی کانٹے دار انسان کبھی ختم نہ ہوں گے ،یہاں تک کہ قیامت آجائے ۔
اس دنیا میں محفوظ اور کامیاب زندگی کا راز کانٹے دار انسانوں سے بچ کر چلنا ہے ،اس کے سواہر دوسرا طریقہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والا ہے ، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اقتباس
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
Previous thread
Next thread