@Abu Dujana @Silent Rose @Doctor @to all who is reading this post
پوسٹ نمبر2 میں ایک سوال ہے۔
ہم انسان باہر کے حالات کو درست نہیں کرسکتے نہ ہمارے اختیار میں ہے۔
فورم پر ہمارے اختیار میں ہوگا کہ کسی غلط پوسٹ کو موو کردیں ری سائکل بن میں ڈال دیں یا کسی ایسی رجسٹر آئیڈی کو ختم کردیں جس کا تعلق سپیمنگ سے ہے، جب ہمارا اختیار یہاں تک ہے تو پھر فورم پر نظر رکھنا فضولیات میں نہیں بلکہ ذمہ داری میں آئے گا۔
اب یہاں تک ہمارا ذہن تیار ہوچکا ہے جو اگلے سوال کو سمجھنے میں مدد دے گا۔۔۔۔۔
اکثریت انسانوں کا کیا تعلق ہے کہ مغرب کے بحری جہاز مشرقی سمندری حدود میں داخل ہوگئے،فلاں ملک کے لڑاکا جہاز فلاں ملک کی زون میں دیکھے گئے،بجٹ میں وہ پیش ہوا فلاں چیزیں مہنگی ہوئی،پارلیمنٹ میں یہ اور وہ بحث ہوئی وغیرہ۔
خبروں میں سے 99 فیصد کا تعلق عام آدمی سے نہیں لیکن یہی عام آدمی خبروں ٹاک شوز،تبصروں کو کسی مقدار میں بتایا جائے تو 100٪سنتا دیکھتا ہے،کوئی آدمی کھانا مؤخر کردے گا لیکن سیاسی بحث مباحثہ میں وہ اتنا الجھا یا اس کا اتنا انٹرسٹ بڑھا ہوا ہوتا ہے کہ وہ اسے اختتام تک دیکھنا جاری رکھے گا،ایک مثال ہوئی۔
باہر ممالک (اووسیز پاکستانی)چونکہ وہ پاکستان کے اندر رہنے والے لوگوں کی الجھنوں سے دور اور ایک قسم کا تماشائی بنے ہوئے ہوتے ہیں جسے عام پاکستانی فیس کررہا ہوتا ہے تو ان اوورسیز پاکستانیوں کی اپنی زندگی تو بہتر ماحول کے اندر گزررہی ہوتی ہے، وہ لوڈشیڈنگ سے محفوظ ائیر کنڈیشن کمروں میں بیٹھے ہوئے پاکستانی ٹی وی چینلوں کو بدل بدل کر وہی خبریں وہی ٹاک شوز مختلف چہروں سے سن رہے ہوتے ہیں، ان کی ساری دلچسپیاں پاکستانی میڈیا سے وابستہ ہوتی ہیں۔
ایک عام آدمی جو اپنی الجھنوں میں الجھا ہوا ہو اسے کیا خبر کہ ٹی وی پر کیا چل رہا ہے یا اخباروں میں کون سی ہیڈ لائن لگی ہے،وہ نا تو پاکستان کے اندرونی نہ ہی بیرونی حالات حاضرہ سے خبردار ہوتا ہے،اسے صرف اپنے روز مرہ کے کاموں کو کرنا اور کروانے کی فکر رہتی ہے۔
ہمارا سیاسی اور ملکی مسائل پر باہمی الجھنوں میں پڑ کر ایک دوسرے سے بحث مباحثہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
قرآن کا مفہوم ہے کہ جب اللہ نے انسان کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا ہے تو فرشتوں نے کہا کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں تو کیوں انسان کو پیدا کرے گا جو زمین پر لڑائی جھگڑا کریں( جیسا کہ اس سے قبل جنوں کو پیدا کیا گیا تھا)تو اللہ نے فرمایا کہ تم وہ نہیں جانتے جو اللہ جانتا ہے۔
تو کیا انسان جب اپنے مقصد سے ہٹے گا تو اس کی زندگی اسی طرح گزرے گی ؟
انسان جب اچھی کتابیں نہ پڑھیں گے جب ان کا کوئی ٹارگٹ سیٹ نہ ہوگا، قرآن تفسیر،دین کو سیکھنا سمجھنا اور تدبر و غور نہ کریں گے تو پھر وہ اخبارات پڑھیں اور ٹی وی سوشل میڈیا پر تبصرے سنیں گے؟
آج ہماری زندگی کیسی ہے، جاب کام کھانا پینا اور سیاسی ٹالک۔
ایسا کوئی دن نہیں گزر رہا جس دن لوگ اخبارات نہ پڑھتے ہوں ۔
کوئی زیادہ دیر تک اپنے جی کو اخبار دیکھنے سے روک نہیں سکتا، اس کے اندر ایسا تجس ایسا مادہ ہے کہ وہ جاننا چاہتا ہے کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے ،ایک حد تک تو ٹھیک ہے لیکن دیکھنے میں ایسا آرہا ہے کہ لوگوں نے اخبارات وغیرہ سوشل میڈیا کو اوڑھنا بچھونا بنا ڈالا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو زبردست جذبے دئیے انسان نے اسے کسی اور رخ پر خرچ کرنا شروع کردئیے ہیں۔