PakArt UrduLover
Thread Starter

in memoriam 1961-2020، May his soul rest in peace


Charismatic
Designer
Expert
Writer
Popular
ITD Observer
ITD Solo Person
ITD Fan Fictionest
ITD Well Wishir
ITD Intrinsic Person
Persistent Person
ITD Supporter
Top Threads Starter
- Joined
- May 9, 2018
- Local time
- 9:56 AM
- Threads
- 1,354
- Messages
- 7,658
- Reaction score
- 6,966
- Points
- 1,508
- Location
- Manchester U.K
- Gold Coins
- 121.33

ملیر کی گلیاں
part 1
part 1
ملیر کی یادوں کے ساتھ ہرے بھرے پیڑ وابستہ ہیں: امرود، آم، انار، نیم، گلاب، چمبیلی، موتیا۔
ہم بچے نانی کے گھر ہر ہفتے جایا کرتے۔ نانا اور ماموں کے کوارٹر ملے ہوئے تھے۔ ہر کوارٹر میں ایک کمرہ اور ایک بڑا سا آنگن تھا۔ نانا، نانی کے ساتھ خالہ رہتی تھیں اور ماموں، ممانی اور ان کے تین بیٹے ایک ساتھ۔ دونوں کوارٹروں کی درمیانی دیوار نہ تھی لہذا یہ ایک بڑا سا گھر نظر آتا۔ نانی کے آنگن میں امرود کے تین چار پیڑ قطار سے لگے ہوئے تھے اور ایک انار کا درخت تھا۔ ماموں کی طرف ایک بڑا سا نیم کا پیڑ اور موتیا، چمبیلی، اور گلاب کی جھاڑیاں تھیں۔
چھٹیوں کی دوپہر ہم بچے درختوں پر چڑھتے، امرود توڑ توڑ کر کھاتے، آنکھ مچولی کھیلتے۔ شام کو سڑک کے اس پار ملیر ریلوے اسٹیشن کی سیر کو جاتے۔ اور اسٹیشن کے باہر ریل کی پٹریوں کے نیچے بنی پلیاؤں کے اندر بیٹھ کر اوپر سے جاتی ہوئی ٹرین کی آواز سنتے۔ رات کو نانی چار پائیوں پر صاف ستھرے بستر لگاتیں اور ہمیں کہانیاں سناتیں۔ اور ہم تاروں بھرے آسمان کو تکتے تکتے سوجاتے۔ یہ ۱۹۶۰ کی دہائی کی بات ہے۔
تب ملیر کے ہر کوارٹر میں آنگن اور پیڑ ہوتے تھے اور گلیاں صاف ستھری۔ ہواؤں میں امرود کی مہک اور چمبیلی کی خوشبو بسی ہوتی۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے پیڑوں کو کاٹ کر اضافی کمرے بنانے شروع کیے۔ کچے آنگن پکے ہوتے گئے۔ پیڑوں کی تعداد گھٹتی گئی۔ گلاب اور چمبیلی کی جھاڑیاں بھی بتدریج کم ہوتی گئیں۔ کمروں کے باہر ٹین کے شیڈ ڈال کر برآمدے بنائے گئے۔ یہ ۱۹۷۰ کے عشرے کا ذکر ہے۔
آبادی بڑھتی رہی۔ ۸۰ مربع گز پر بنے ہوا دار اور روشن گھر گھٹے ہوئے چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں والے تاریک، ایک منزلہ، دو منزلہ بدصورت مکانوں میں تبدیل ہو گئے۔ گلیوں کی چوڑائی کم ہو گئی کیونکہ لوگوں نے گھروں کے باہر ناجائز احاطے تعمیر کر لیے اور سیاہ آہنی گیٹ لگا لیے تھے۔ پیڑوں کی شاخوں کی جگہ اب ٹی وی اینٹینے، سیاسی جماعتوں کے رنگ برنگے جھنڈوں اور ٹیلی فون کے بے ہنگم تاروں نے لے لی تھی۔ یہ ملیر کالونی تھی ۱۹۸۰ کی دہائی میں۔
اور آج، اپریل ۱۹۹۵ کی ایک صبح، میں ملیر کی ایک پکی سڑک پر چلتے ہوئے اس حصے پر قدم رکھتی ہوں جو کلاشنکوف کی گولیوں کے چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے چھلنی اور ایک انسان کے خون سے سیاہ ہے۔۔۔ وہ انسان جسے آج سے پندرہ دن قبل سڑک کے اسی حصے پر سفاکی سے قتل کیا گیا۔ میں ان تبدیلیوں کو گرفت میں لانے کی کوشش کرتی ہوں جو گزشتہ تین دہائیوں میں اس زمین، اور اس زمین کے باسیوں کی روح میں در آئی ہیں۔ کتنی گمھبیر تبدیلیاں ہیں یہ۔ اور کتنا مسخ کردیا ہے انھو ں نے ، ملیر کو، جو کبھی ایک سرسبز اور پر امن وادی تھی، اور اس کے مکینوں کی روح کو، وہ سادہ لوح ، مہمان نواز مکیں جو پیڑوں، پھلوں، پھولوں، سبک ہواؤں اور ز ندگی سے محبت کرتے تھے۔
اس منظر کا تصور میرے ذہن کے دریچے میں ثبت ہو کر رہ گیا ہے: دوپہر کا وقت ہے۔ زندگی کا کاروبار جاری ہے۔ سڑک کے کنارے بنی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں گاہک کھڑے اشیاء صرف کی خریداری میں مصروف ہیں۔ بچے گلیوں میں کھیل رہے ہیں اور عورتیں گھروں کی دہلیز پر کھڑی ایک دوسرے سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایک کار سڑک پر رکتی ہے۔ سامنے حلوائی اور ڈرائی کلینر کی دکانیں ہیں۔ گاڑی میں سے تین مسلح آدمی اترتے ہیں، ڈکی کھولتے ہیں۔ ایک ادھ موئے، نیم جان، کمر تک ننگے آدمی کو نکالتے ہیں جس کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں، اور اسے تپتی ہوئی تارکول کی سڑک پر پھینکتے ہیں، اس پر کلاشنکوف سے گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہیں، پھر اس کے چہرے پر ٹھوکر مار کر یقین کرتے ہیں کہ وہ مرچکا ہے یا نہیں۔ اور جب اس کا خون آلود ساکت چہرہ ایک طرف ڈھلک جاتا ہے تو گاڑی کا دروازہ کھول کر اطمینان سے بیٹھتے ہیں اور گاڑی آہستہ خرامی سے سڑک پر چلتی ہوئی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
لاش تین گھنٹے خون کے تالاب میں ڈوبی پڑی رہی۔ وہ ایک تنومند، گھبرو جوان تھا۔ کوئی لاش کے قریب نہ پھٹکا۔ سڑک پر زندگی کا کاروبار جاری رہا۔ البتہ ایک وحشت ناک خاموشی پھیل چکی تھی۔ لوگ سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔ وہ اپنے کام جلدی جلدی نمٹا رہے تھے اور لاش کو کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ آخرکار تین گھنٹے بعد ایدھی کی ایمبولیس پہنچی اور لاش اٹھا کر لے کر گئی۔ "ہفتہ بھر وہ لاش مردہ خانے میں پڑی رہی۔ پھر کہیں جا کے اس کی شناخت ہوئی۔ پتہ چلا وہ فوجی تھا،" سفید بالوں اور جھریوں بھرے چہرے والی بزرگ خاتون موضوع سخن سے ہٹ چلی ھیں۔ میں ملیر کے اس گھر میں بیٹھی ان کے نوجوان بھتیجے کے بارے میں بات کرنا چاہ رہی ہوں جو چند ماہ پہلے اس گھر کے اندر قتل ہوا۔
"خدا رحم کرے ہم سب پر۔ ہمیں کیا ہوگیا؟ کیا ہمارے اندر شیطان حلول کر گیا ہے؟" مقتول نوجوان کی پھوپھی، تسبیح ہلاتی ہوئی، تیز تیز بولے جا رہی ھیں۔ مقتول کی ماں کسی سوئم میں گئی ہوئی ہیں اور میں گھر کی عورتوں سے بات کر رہی ہوں۔
"لوگوں اتنے بےدرد، اتنے بےرحم ہو گئے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں کہ بھیڑ بکریوں کو بھی ایسے ذبح نہیں کیا جاتا۔۔۔" مقتول کی چچی تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہہ رہی ہیں۔ "ساتواں روزہ تھا۔ میں ظہر کی نماز کے بعد تسبیح پڑھ رہی تھی۔ ریحان دوسرے کمرے میں نماز پڑھ رہا تھا۔ ریحان کی ماں بھی نماز پڑھ رہی تھیں۔ دودھ والا دودھ دے کر پلٹا تھا اور میں دودھ کی تھیلی ہاتھ میں لیے باورچی خانے کی طرف مڑی ہی تھی کہ اتنے میں ایک سفید کار گھر کے گیٹ پر رکی، تین آدمی بڑی بڑی بندوقیں لیے دراتے ہوئے اندر آگئے اور چلا کر پوچھا ُریحان ہے؟ُ انھوں نے جواب کا انتظار بھی نہ کیا اور سیدھے اندر چلے گئے۔ ہمارے گھر کے ساتھ والا مکان ریحان کا ہے اور اندر سے ایک چھوٹا سا راستہ جو دونوں گھروں کو ملاتا ہے۔ بس وہ سیدھے اس راستے سے ہوتے ہوئے اندر چلے گئے۔ ریحان ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا"، چچی ایک دم سے خاموشی ہو گئیں۔ پھوپھی، ماں اور چچی کی چیخوں اور بچوں کی خوف زدہ ہو کر رونے کی آوازوں کے درمیان قاتلوں نے کمرے میں داخل ہو کر گولیوں کی باڑھ ماری۔ "ریحان کے ہاتھ نماز کے لیے بندھے ہوئے تھے۔ سینے پہ بندھے ہاتھوں کے ساتھ کوئی آواز نکالے بغیر گر گیا۔ بائیس گولیاں نکلی تھیں جسم سے"، وہ مجھے بتا رہی ہیں۔
"یہ سب کچھ منٹوں میں ہو گیا اور قاتل جس راستے سے آئے اسی راستے واپس ہو گئے۔ دو کے منہ پر ڈھاٹے بندھے ہوئے تھے اور ایک جو درمیانی راستہ پر جم کر کھڑا ہوا نقاب نہیں پہنے تھا"، چچی نے بتایا۔ شاید آپ اسے پہچان سکیں؟ میں سوالیہ
"میں؟ نہیں۔ نہیں۔" وہ گبھرا سی گئیں "مجھے اس کی شکل بالکل یاد نہیں۔ ہوش وحواس میں کہاں تھی تب۔"
"اگر پہچان بھی لے تو کیا ریحان ہمیں واپس مل جائے گا؟ جانے والا تو گیا،" پھوپھی جلدی سے بولیں۔
پھوپھی مجھے وہ کمرہ دکھانے لے جاتی ہیں جہاں وہ قتل ہوا۔ یہ ایک بہت تنگ سا کمرہ ہے۔ جس میں صرف ایک صوفہ سیٹ ہے جو تین دیواروں کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ صوفے کی وسطی میز کو چوتھی دیوار کے ساتھ لگا کر رکھا گیا ہے اور کمرے کے وسط میں دری بچھی ہوئی ہے جس پر جائے نماز بچھائی جا سکتی ہے۔ چاروں دیواریں، اور صوفہ سیٹ گولیوں سے چھلنی ہیں۔ میں صوفے پر بیٹھی ہوں۔ ریحان کی چچی ہمارے لیے چائے لے کر آتی ہیں۔
ستائیس سالہ ریحان سات بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے بڑا تھا۔ ریحان کے باپ تیرہ سال پہلے طویل بیماری کے بعد فوت ہوئے۔ ریحان اس وقت آٹھویں میں تھا۔ اس نے پڑھائی جاری رکھی اور لیاقت مارکیٹ میں اپنے ماموں کی دکان میں بطور سیلز مین کام شروع کیا۔ بی۔کام کرنے کے بعد اس نے ڈوپٹوں کی دکان لگائی۔ دو چھوٹے بھائی اس کی مدد سے جمعہ بازار میں اسٹال لگاتے۔ پورے گھر کی ذمہ دار اس پر تھی۔
"ریحان کے قتل کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا۔ بھائیوں نے تین ماہ سے جمعہ بازار میں اسٹال نہیں لگایا ہے۔ ایک چھوٹے بھائی کی ذہنی حالت بگڑ گئی۔ عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔ پنڈی بھیج دیا تھا رشتے کے چچا کے پاس۔ لیکن کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔ گھنٹوں چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے۔ خلا میں تکتا رہتا ہے۔ ہاتھ کھڑے کھڑے سینے پر باندھ لیتا ہے جیسے نماز پڑھ رہا ہو اور بڑبڑانے لگتا ہے: ُمیرا بھائی ستائیس سال کا تھا۔ اس کی شادی ہونے والی تھیُ۔ اور پتہ نہیں کیا کیا،" پھوپھی کہہ رہی ہیں۔
کیا ریحان کسی سیاسی پارٹی سے وابسطہ تھا؟
پھوپھی اور چچی خاموش ہو جاتی ہیں۔
"ہمیں کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ آپ اس کی ماں سے بات کریں آ کر۔ وہ بتائیں گی سب"۔
ریحان کا تعلق MQM سے تھا۔ محلے کے لوگوں سے معلوم ہوا۔ تین سال پہلے ریحان کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ اٹھارہ دن بعد واپس آیا۔ "ان دنوں اس نے ایک جگہ نوکری شروع کی تھی اغوا کے بعد اس نے ہمیں کبھی کچھ نہ بتایا۔ لیکن اس کے بعد سے مہینوں وہ دہشت زدہ رہا۔ ہفتوں کھانا نہ کھا سکا۔ نوالہ ہی نہیں نگلا جاتا تھا۔ ایسا خوف، ایسی دہشت تھی کہ ہم نے کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کی۔ ماں اور پھوپھی کے بیچ میں لیٹ کر سوتا۔ راتوں کو گھبرا کر اٹھ بیٹھتا۔ بس کچھ نہ پوچھو کیسا کڑا وقت تھا۔ لیکن ایک تسلی تھی، کہ زندہ سلامت تو ہے۔ اب تو سب کچھ ختم ہو گیا۔ یاد ہی رہ گئی ہے۔
ہم بچے نانی کے گھر ہر ہفتے جایا کرتے۔ نانا اور ماموں کے کوارٹر ملے ہوئے تھے۔ ہر کوارٹر میں ایک کمرہ اور ایک بڑا سا آنگن تھا۔ نانا، نانی کے ساتھ خالہ رہتی تھیں اور ماموں، ممانی اور ان کے تین بیٹے ایک ساتھ۔ دونوں کوارٹروں کی درمیانی دیوار نہ تھی لہذا یہ ایک بڑا سا گھر نظر آتا۔ نانی کے آنگن میں امرود کے تین چار پیڑ قطار سے لگے ہوئے تھے اور ایک انار کا درخت تھا۔ ماموں کی طرف ایک بڑا سا نیم کا پیڑ اور موتیا، چمبیلی، اور گلاب کی جھاڑیاں تھیں۔
چھٹیوں کی دوپہر ہم بچے درختوں پر چڑھتے، امرود توڑ توڑ کر کھاتے، آنکھ مچولی کھیلتے۔ شام کو سڑک کے اس پار ملیر ریلوے اسٹیشن کی سیر کو جاتے۔ اور اسٹیشن کے باہر ریل کی پٹریوں کے نیچے بنی پلیاؤں کے اندر بیٹھ کر اوپر سے جاتی ہوئی ٹرین کی آواز سنتے۔ رات کو نانی چار پائیوں پر صاف ستھرے بستر لگاتیں اور ہمیں کہانیاں سناتیں۔ اور ہم تاروں بھرے آسمان کو تکتے تکتے سوجاتے۔ یہ ۱۹۶۰ کی دہائی کی بات ہے۔
تب ملیر کے ہر کوارٹر میں آنگن اور پیڑ ہوتے تھے اور گلیاں صاف ستھری۔ ہواؤں میں امرود کی مہک اور چمبیلی کی خوشبو بسی ہوتی۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے پیڑوں کو کاٹ کر اضافی کمرے بنانے شروع کیے۔ کچے آنگن پکے ہوتے گئے۔ پیڑوں کی تعداد گھٹتی گئی۔ گلاب اور چمبیلی کی جھاڑیاں بھی بتدریج کم ہوتی گئیں۔ کمروں کے باہر ٹین کے شیڈ ڈال کر برآمدے بنائے گئے۔ یہ ۱۹۷۰ کے عشرے کا ذکر ہے۔
آبادی بڑھتی رہی۔ ۸۰ مربع گز پر بنے ہوا دار اور روشن گھر گھٹے ہوئے چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں والے تاریک، ایک منزلہ، دو منزلہ بدصورت مکانوں میں تبدیل ہو گئے۔ گلیوں کی چوڑائی کم ہو گئی کیونکہ لوگوں نے گھروں کے باہر ناجائز احاطے تعمیر کر لیے اور سیاہ آہنی گیٹ لگا لیے تھے۔ پیڑوں کی شاخوں کی جگہ اب ٹی وی اینٹینے، سیاسی جماعتوں کے رنگ برنگے جھنڈوں اور ٹیلی فون کے بے ہنگم تاروں نے لے لی تھی۔ یہ ملیر کالونی تھی ۱۹۸۰ کی دہائی میں۔
اور آج، اپریل ۱۹۹۵ کی ایک صبح، میں ملیر کی ایک پکی سڑک پر چلتے ہوئے اس حصے پر قدم رکھتی ہوں جو کلاشنکوف کی گولیوں کے چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے چھلنی اور ایک انسان کے خون سے سیاہ ہے۔۔۔ وہ انسان جسے آج سے پندرہ دن قبل سڑک کے اسی حصے پر سفاکی سے قتل کیا گیا۔ میں ان تبدیلیوں کو گرفت میں لانے کی کوشش کرتی ہوں جو گزشتہ تین دہائیوں میں اس زمین، اور اس زمین کے باسیوں کی روح میں در آئی ہیں۔ کتنی گمھبیر تبدیلیاں ہیں یہ۔ اور کتنا مسخ کردیا ہے انھو ں نے ، ملیر کو، جو کبھی ایک سرسبز اور پر امن وادی تھی، اور اس کے مکینوں کی روح کو، وہ سادہ لوح ، مہمان نواز مکیں جو پیڑوں، پھلوں، پھولوں، سبک ہواؤں اور ز ندگی سے محبت کرتے تھے۔
اس منظر کا تصور میرے ذہن کے دریچے میں ثبت ہو کر رہ گیا ہے: دوپہر کا وقت ہے۔ زندگی کا کاروبار جاری ہے۔ سڑک کے کنارے بنی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں گاہک کھڑے اشیاء صرف کی خریداری میں مصروف ہیں۔ بچے گلیوں میں کھیل رہے ہیں اور عورتیں گھروں کی دہلیز پر کھڑی ایک دوسرے سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایک کار سڑک پر رکتی ہے۔ سامنے حلوائی اور ڈرائی کلینر کی دکانیں ہیں۔ گاڑی میں سے تین مسلح آدمی اترتے ہیں، ڈکی کھولتے ہیں۔ ایک ادھ موئے، نیم جان، کمر تک ننگے آدمی کو نکالتے ہیں جس کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں، اور اسے تپتی ہوئی تارکول کی سڑک پر پھینکتے ہیں، اس پر کلاشنکوف سے گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہیں، پھر اس کے چہرے پر ٹھوکر مار کر یقین کرتے ہیں کہ وہ مرچکا ہے یا نہیں۔ اور جب اس کا خون آلود ساکت چہرہ ایک طرف ڈھلک جاتا ہے تو گاڑی کا دروازہ کھول کر اطمینان سے بیٹھتے ہیں اور گاڑی آہستہ خرامی سے سڑک پر چلتی ہوئی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
لاش تین گھنٹے خون کے تالاب میں ڈوبی پڑی رہی۔ وہ ایک تنومند، گھبرو جوان تھا۔ کوئی لاش کے قریب نہ پھٹکا۔ سڑک پر زندگی کا کاروبار جاری رہا۔ البتہ ایک وحشت ناک خاموشی پھیل چکی تھی۔ لوگ سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔ وہ اپنے کام جلدی جلدی نمٹا رہے تھے اور لاش کو کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ آخرکار تین گھنٹے بعد ایدھی کی ایمبولیس پہنچی اور لاش اٹھا کر لے کر گئی۔ "ہفتہ بھر وہ لاش مردہ خانے میں پڑی رہی۔ پھر کہیں جا کے اس کی شناخت ہوئی۔ پتہ چلا وہ فوجی تھا،" سفید بالوں اور جھریوں بھرے چہرے والی بزرگ خاتون موضوع سخن سے ہٹ چلی ھیں۔ میں ملیر کے اس گھر میں بیٹھی ان کے نوجوان بھتیجے کے بارے میں بات کرنا چاہ رہی ہوں جو چند ماہ پہلے اس گھر کے اندر قتل ہوا۔
"خدا رحم کرے ہم سب پر۔ ہمیں کیا ہوگیا؟ کیا ہمارے اندر شیطان حلول کر گیا ہے؟" مقتول نوجوان کی پھوپھی، تسبیح ہلاتی ہوئی، تیز تیز بولے جا رہی ھیں۔ مقتول کی ماں کسی سوئم میں گئی ہوئی ہیں اور میں گھر کی عورتوں سے بات کر رہی ہوں۔
"لوگوں اتنے بےدرد، اتنے بےرحم ہو گئے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں کہ بھیڑ بکریوں کو بھی ایسے ذبح نہیں کیا جاتا۔۔۔" مقتول کی چچی تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہہ رہی ہیں۔ "ساتواں روزہ تھا۔ میں ظہر کی نماز کے بعد تسبیح پڑھ رہی تھی۔ ریحان دوسرے کمرے میں نماز پڑھ رہا تھا۔ ریحان کی ماں بھی نماز پڑھ رہی تھیں۔ دودھ والا دودھ دے کر پلٹا تھا اور میں دودھ کی تھیلی ہاتھ میں لیے باورچی خانے کی طرف مڑی ہی تھی کہ اتنے میں ایک سفید کار گھر کے گیٹ پر رکی، تین آدمی بڑی بڑی بندوقیں لیے دراتے ہوئے اندر آگئے اور چلا کر پوچھا ُریحان ہے؟ُ انھوں نے جواب کا انتظار بھی نہ کیا اور سیدھے اندر چلے گئے۔ ہمارے گھر کے ساتھ والا مکان ریحان کا ہے اور اندر سے ایک چھوٹا سا راستہ جو دونوں گھروں کو ملاتا ہے۔ بس وہ سیدھے اس راستے سے ہوتے ہوئے اندر چلے گئے۔ ریحان ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا"، چچی ایک دم سے خاموشی ہو گئیں۔ پھوپھی، ماں اور چچی کی چیخوں اور بچوں کی خوف زدہ ہو کر رونے کی آوازوں کے درمیان قاتلوں نے کمرے میں داخل ہو کر گولیوں کی باڑھ ماری۔ "ریحان کے ہاتھ نماز کے لیے بندھے ہوئے تھے۔ سینے پہ بندھے ہاتھوں کے ساتھ کوئی آواز نکالے بغیر گر گیا۔ بائیس گولیاں نکلی تھیں جسم سے"، وہ مجھے بتا رہی ہیں۔
"یہ سب کچھ منٹوں میں ہو گیا اور قاتل جس راستے سے آئے اسی راستے واپس ہو گئے۔ دو کے منہ پر ڈھاٹے بندھے ہوئے تھے اور ایک جو درمیانی راستہ پر جم کر کھڑا ہوا نقاب نہیں پہنے تھا"، چچی نے بتایا۔ شاید آپ اسے پہچان سکیں؟ میں سوالیہ
"میں؟ نہیں۔ نہیں۔" وہ گبھرا سی گئیں "مجھے اس کی شکل بالکل یاد نہیں۔ ہوش وحواس میں کہاں تھی تب۔"
"اگر پہچان بھی لے تو کیا ریحان ہمیں واپس مل جائے گا؟ جانے والا تو گیا،" پھوپھی جلدی سے بولیں۔
پھوپھی مجھے وہ کمرہ دکھانے لے جاتی ہیں جہاں وہ قتل ہوا۔ یہ ایک بہت تنگ سا کمرہ ہے۔ جس میں صرف ایک صوفہ سیٹ ہے جو تین دیواروں کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ صوفے کی وسطی میز کو چوتھی دیوار کے ساتھ لگا کر رکھا گیا ہے اور کمرے کے وسط میں دری بچھی ہوئی ہے جس پر جائے نماز بچھائی جا سکتی ہے۔ چاروں دیواریں، اور صوفہ سیٹ گولیوں سے چھلنی ہیں۔ میں صوفے پر بیٹھی ہوں۔ ریحان کی چچی ہمارے لیے چائے لے کر آتی ہیں۔
ستائیس سالہ ریحان سات بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے بڑا تھا۔ ریحان کے باپ تیرہ سال پہلے طویل بیماری کے بعد فوت ہوئے۔ ریحان اس وقت آٹھویں میں تھا۔ اس نے پڑھائی جاری رکھی اور لیاقت مارکیٹ میں اپنے ماموں کی دکان میں بطور سیلز مین کام شروع کیا۔ بی۔کام کرنے کے بعد اس نے ڈوپٹوں کی دکان لگائی۔ دو چھوٹے بھائی اس کی مدد سے جمعہ بازار میں اسٹال لگاتے۔ پورے گھر کی ذمہ دار اس پر تھی۔
"ریحان کے قتل کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا۔ بھائیوں نے تین ماہ سے جمعہ بازار میں اسٹال نہیں لگایا ہے۔ ایک چھوٹے بھائی کی ذہنی حالت بگڑ گئی۔ عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔ پنڈی بھیج دیا تھا رشتے کے چچا کے پاس۔ لیکن کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔ گھنٹوں چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے۔ خلا میں تکتا رہتا ہے۔ ہاتھ کھڑے کھڑے سینے پر باندھ لیتا ہے جیسے نماز پڑھ رہا ہو اور بڑبڑانے لگتا ہے: ُمیرا بھائی ستائیس سال کا تھا۔ اس کی شادی ہونے والی تھیُ۔ اور پتہ نہیں کیا کیا،" پھوپھی کہہ رہی ہیں۔
کیا ریحان کسی سیاسی پارٹی سے وابسطہ تھا؟
پھوپھی اور چچی خاموش ہو جاتی ہیں۔
"ہمیں کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ آپ اس کی ماں سے بات کریں آ کر۔ وہ بتائیں گی سب"۔
ریحان کا تعلق MQM سے تھا۔ محلے کے لوگوں سے معلوم ہوا۔ تین سال پہلے ریحان کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ اٹھارہ دن بعد واپس آیا۔ "ان دنوں اس نے ایک جگہ نوکری شروع کی تھی اغوا کے بعد اس نے ہمیں کبھی کچھ نہ بتایا۔ لیکن اس کے بعد سے مہینوں وہ دہشت زدہ رہا۔ ہفتوں کھانا نہ کھا سکا۔ نوالہ ہی نہیں نگلا جاتا تھا۔ ایسا خوف، ایسی دہشت تھی کہ ہم نے کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کی۔ ماں اور پھوپھی کے بیچ میں لیٹ کر سوتا۔ راتوں کو گھبرا کر اٹھ بیٹھتا۔ بس کچھ نہ پوچھو کیسا کڑا وقت تھا۔ لیکن ایک تسلی تھی، کہ زندہ سلامت تو ہے۔ اب تو سب کچھ ختم ہو گیا۔ یاد ہی رہ گئی ہے۔
Previous thread
Next thread