شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ چودہ برس کی عمر میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک قافلے کے ساتھ بغداد روانہ ہوئے۔ تو آپ کی والدہ نے آپ کی گڈری میں چالیس اشرفیاں اس مقصد کے لیے سی دیں کہ حفاظت رہے اور بوقتِ ضرورت کام آسکیں، اتفاق (یہاں کچھ لوگ بدقسمتی کا لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن میں اسے بدقسمتی نہیں کہوں گا) سے راستے میں ڈاکو پڑگئے، ان کے جو ہاتھ پڑا انہوں نے قافلے والوں سے چھین لیا اور عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ کے پاس کیا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ میرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں، ڈاکوؤں نے ان کی بات کو مذاق سمجھا اور یہ معاملہ ڈاکوؤں کے سردار تک جا پہنچا۔۔ آپؒ نے جب ڈاکوؤں کے سردار کے پوچھنے پر بھی یہی جواب دیا تو سب بہت حیران ہوئے، سردار نے کہا لاؤ دکھاؤ۔۔ تو آپؒ نے اشرفیاں نکال کر آگے رکھ دیں۔۔ سردار نے یہ دیکھتے ہوئے حیرانی سے کہا "ہم ہزار کوششوں کے باوجود تلاش نہیں کرسکتے تھے، آپؒ نے کیوں ظاہر کردیں"
تو آپؒ نے جواب دیا "میں تعلیم کی غرض سے بغداد جا رہا ہوں یہ اشرفیاں میری والدہ نے سفر کے خرچ کے لیے میری گدڑی میں رکھی تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بڑی شدت سے تاکید کی کہ سچ کو کسی صورت میں بھی ہاتھ سے نہ جانے دینا ہمیشہ سچ بولنا"
ڈاکو ان کی سچائی سے اسقدر متاثر ہوئے کہ فوری توبہ تائب ہوکر لوٹا ہوا سامان قافلے والوں کو واپس کیا اور چوروں ڈاکوؤں کی صف سے باہر نکل کر اللہ کے دوستوں میں شمار ہوئے۔۔
کہاں وہ بڑے بڑے ڈاکو اور کہاں ایک چودہ سالہ لڑکا، وہ چاہتے تو لوٹ کھسوٹ کرکے نکل جاتے لیکن انہوں نے شخصیت کی بجائے سوچ اور نظرئیے کو اہمیت دی اور فلاح پالی۔۔ دوسری طرف ہم لوگ ہیں جو شخصیت کو ویلیو دیتے ہیں نظرئیے کو نہیں، ہم سے کم مالی حیثیت والے انسان کی باتیں ہمیں بکواس لگتی ہیں، اور مالدار آدمی کی گالیاں تبرک سمجھ کر دِل سے لگاتے ہیں، ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو حوس و تکبر کے تالے لگ چکے ہیں، افسوس کہ ہم لوگ اس دور کے چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بدتر ہوگئے ہیں۔۔ اللہ پاک ہمیں سمجھنے اور صحیح سوچ اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔۔ آمین
از-اے ایم
تو آپؒ نے جواب دیا "میں تعلیم کی غرض سے بغداد جا رہا ہوں یہ اشرفیاں میری والدہ نے سفر کے خرچ کے لیے میری گدڑی میں رکھی تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بڑی شدت سے تاکید کی کہ سچ کو کسی صورت میں بھی ہاتھ سے نہ جانے دینا ہمیشہ سچ بولنا"
ڈاکو ان کی سچائی سے اسقدر متاثر ہوئے کہ فوری توبہ تائب ہوکر لوٹا ہوا سامان قافلے والوں کو واپس کیا اور چوروں ڈاکوؤں کی صف سے باہر نکل کر اللہ کے دوستوں میں شمار ہوئے۔۔
کہاں وہ بڑے بڑے ڈاکو اور کہاں ایک چودہ سالہ لڑکا، وہ چاہتے تو لوٹ کھسوٹ کرکے نکل جاتے لیکن انہوں نے شخصیت کی بجائے سوچ اور نظرئیے کو اہمیت دی اور فلاح پالی۔۔ دوسری طرف ہم لوگ ہیں جو شخصیت کو ویلیو دیتے ہیں نظرئیے کو نہیں، ہم سے کم مالی حیثیت والے انسان کی باتیں ہمیں بکواس لگتی ہیں، اور مالدار آدمی کی گالیاں تبرک سمجھ کر دِل سے لگاتے ہیں، ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو حوس و تکبر کے تالے لگ چکے ہیں، افسوس کہ ہم لوگ اس دور کے چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بدتر ہوگئے ہیں۔۔ اللہ پاک ہمیں سمجھنے اور صحیح سوچ اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔۔ آمین
از-اے ایم
Previous thread
Next thread