PakArt UrduLover
Thread Starter

in memoriam 1961-2020، May his soul rest in peace


Charismatic
Designer
Expert
Writer
Popular
ITD Observer
ITD Solo Person
ITD Fan Fictionest
ITD Well Wishir
ITD Intrinsic Person
Persistent Person
ITD Supporter
Top Threads Starter
- Joined
- May 9, 2018
- Local time
- 2:07 AM
- Threads
- 1,354
- Messages
- 7,658
- Reaction score
- 6,967
- Points
- 1,508
- Location
- Manchester U.K
- Gold Coins
- 124.73

وہ ایک مونگ پھلی
سیٹھ ارشاد اپنے بنگلے کی اندرونی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ انھوں نے دوبارہ اپنی آنکھیں ملیں، لیکن منظر پھر بھی وہی رہا۔ پانچ روز پہلے ہی وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک قریبی عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ شادی ایک دوسرے شہر احمد نگر میں تھی۔ تقریب میں سب کی شرکت ضروری تھی، اس لیے وہ اپنے گھریلو چوکیدار اور خانساماں کو گھر کا امین بنا کر چلے گئے۔
سیٹھ ارشاد کے عزیز انھیں آج بھی جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے، لیکن انھوں نے دفتری مصروفیات کا بہانہ کر کے ان سے اجازت لے لی، البتہ انھوں نے اپنی بیگم اور بچوں کو مزید دو دن رہنے کی اجازت دے دی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اتوار کے روز وہ گھر والوں کو واپس لے جائیں گے۔ اکیلے سفر کرنا اور گھر میں رہنا ان کے بس کی بات نہیں تھی، اس لیے وہ اپنے بڑے بیٹے غفران کو اپنے ساتھ گاڑی میں لے کر روانہ ہو گئے، گھر پہنچے تو وہاں کا نقشہ ہی بدلا ہوا دیکھا۔
وہ ڈرائنگ روم سے کچن اور کچن سے ٹی وی لاؤنج اور دوسرے کمروں کی طرف دوڑے۔ جوں جوں وہ آگے بڑھتے رہے، ان کی حیرانی اور پریشانی بڑھتی گئی۔ سردی کے موسم میں ان کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔
خانساماں تو انھوں نے ایک سال پہلے ہی رکھا تھا، لیکن چوکیدار تو گزشتہ آٹھ برسوں سے ان کے ہاں ملازمت کر رہا تھا۔ اگر کوئی اس کے بارے میں رائے لیتا تو وہ اس کی ایمانداری کی قسم کھانے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ آج وہ دونوں غائب تھے اور ان کے بنگلے کا سامان بھی۔ ان کی حیرانی اس بات پر تھی کہ چوروں کے گھر کا بڑا سامان تک نہیں چھوڑا تھا۔
اچانک سیٹھ ارشاد کو گھر میں رکھی ہوئی دس لاکھ کی نقدی، بیگم کے زیورات اور ہیرے کے قیمتی سیٹ یاد آئے۔ انھیں یقین تھا کہ وہ محفوظ ہوں گے۔ وہ اپنے بیڈروم کی طرف دوڑے۔ دیوار پر تصویر ٹنگی دیکھ کر انھیں کچھ اطمینان ہوا کہ خفیہ لاکر کھولنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ تصویر ہٹا کر انھوں نے لاکر کا ہینڈل گھمایا تو انھیں اپنے پاؤ ں تلے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس لیے کہ ہینڈل آسانی سے گھوم گیا اور لاکر کھل گیا تھا۔ اندر نظر پڑتے ہی ان کا سر چکرانے لگا۔ وہ اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکے اور دھڑام سے گر پڑے۔ غفران نے اندر نظر ڈالی تو دیکھا کہ لاکر بالکل خالی تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ سامان نکالنے کے بعد اسے کپڑے سے رگڑ کر صاف بھی کر دیا گیا ہو۔
اپنے والد کی اچانک طبیعت خراب ہونے پر غفران پریشان تو ہوا، لیکن اس نے اپنے حواس قابو میں رکھے اور اپنے والد کو ہوش میں لانے کی کوشش کی، لیکن اسے کامیابی نہ ہو سکی۔ کسی نہ کسی طرح وہ انھیں گاڑی تک لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ وقت پر اسپتال پہنچ جانے سے ارشاد صاحب کی جان بچا لی گئی۔
ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ انھیں شدید صدمے کی وجہ سے "برین ہیمرج" ہوا ہے اور دماغ کی رگ پھٹنے سے ان پر فالج ہو چکا تھا۔ اب ان کا جسم حرکت کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔ سیٹھ ارشاد بیڈ پر پڑے کمرے کی چھت کو گھور رہے تھے۔ غفران اپنے والد کی یہ حالت دیکھ کر رو دیا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کچھ دیر پہلے ہنستے بولتے اس کے والد اس طرح بے جان لاش بن جائیں گے۔ غفران کمرے کے کونے میں کھڑا اپنے والد کی صحت یابی کے لیے دعا کر رہا تھا۔
اسپتال میں آنے والے ان کے پڑوسیوں نے بتایا کہ ان کے ملازمین دو دنوں میں سارا سامان گاڑیوں میں ڈال کر لے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ارشاد صاحب نے دوسرے شہر میں بنگلا لے لیا ہے۔ چوکیدار امام بخش اس پورے کام کی نگرانی کر رہا تھا۔
سیٹھ ارشاد کے عزیز انھیں آج بھی جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے، لیکن انھوں نے دفتری مصروفیات کا بہانہ کر کے ان سے اجازت لے لی، البتہ انھوں نے اپنی بیگم اور بچوں کو مزید دو دن رہنے کی اجازت دے دی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اتوار کے روز وہ گھر والوں کو واپس لے جائیں گے۔ اکیلے سفر کرنا اور گھر میں رہنا ان کے بس کی بات نہیں تھی، اس لیے وہ اپنے بڑے بیٹے غفران کو اپنے ساتھ گاڑی میں لے کر روانہ ہو گئے، گھر پہنچے تو وہاں کا نقشہ ہی بدلا ہوا دیکھا۔
وہ ڈرائنگ روم سے کچن اور کچن سے ٹی وی لاؤنج اور دوسرے کمروں کی طرف دوڑے۔ جوں جوں وہ آگے بڑھتے رہے، ان کی حیرانی اور پریشانی بڑھتی گئی۔ سردی کے موسم میں ان کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔
خانساماں تو انھوں نے ایک سال پہلے ہی رکھا تھا، لیکن چوکیدار تو گزشتہ آٹھ برسوں سے ان کے ہاں ملازمت کر رہا تھا۔ اگر کوئی اس کے بارے میں رائے لیتا تو وہ اس کی ایمانداری کی قسم کھانے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ آج وہ دونوں غائب تھے اور ان کے بنگلے کا سامان بھی۔ ان کی حیرانی اس بات پر تھی کہ چوروں کے گھر کا بڑا سامان تک نہیں چھوڑا تھا۔
اچانک سیٹھ ارشاد کو گھر میں رکھی ہوئی دس لاکھ کی نقدی، بیگم کے زیورات اور ہیرے کے قیمتی سیٹ یاد آئے۔ انھیں یقین تھا کہ وہ محفوظ ہوں گے۔ وہ اپنے بیڈروم کی طرف دوڑے۔ دیوار پر تصویر ٹنگی دیکھ کر انھیں کچھ اطمینان ہوا کہ خفیہ لاکر کھولنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ تصویر ہٹا کر انھوں نے لاکر کا ہینڈل گھمایا تو انھیں اپنے پاؤ ں تلے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس لیے کہ ہینڈل آسانی سے گھوم گیا اور لاکر کھل گیا تھا۔ اندر نظر پڑتے ہی ان کا سر چکرانے لگا۔ وہ اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکے اور دھڑام سے گر پڑے۔ غفران نے اندر نظر ڈالی تو دیکھا کہ لاکر بالکل خالی تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ سامان نکالنے کے بعد اسے کپڑے سے رگڑ کر صاف بھی کر دیا گیا ہو۔
اپنے والد کی اچانک طبیعت خراب ہونے پر غفران پریشان تو ہوا، لیکن اس نے اپنے حواس قابو میں رکھے اور اپنے والد کو ہوش میں لانے کی کوشش کی، لیکن اسے کامیابی نہ ہو سکی۔ کسی نہ کسی طرح وہ انھیں گاڑی تک لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ وقت پر اسپتال پہنچ جانے سے ارشاد صاحب کی جان بچا لی گئی۔
ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ انھیں شدید صدمے کی وجہ سے "برین ہیمرج" ہوا ہے اور دماغ کی رگ پھٹنے سے ان پر فالج ہو چکا تھا۔ اب ان کا جسم حرکت کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔ سیٹھ ارشاد بیڈ پر پڑے کمرے کی چھت کو گھور رہے تھے۔ غفران اپنے والد کی یہ حالت دیکھ کر رو دیا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کچھ دیر پہلے ہنستے بولتے اس کے والد اس طرح بے جان لاش بن جائیں گے۔ غفران کمرے کے کونے میں کھڑا اپنے والد کی صحت یابی کے لیے دعا کر رہا تھا۔
اسپتال میں آنے والے ان کے پڑوسیوں نے بتایا کہ ان کے ملازمین دو دنوں میں سارا سامان گاڑیوں میں ڈال کر لے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ارشاد صاحب نے دوسرے شہر میں بنگلا لے لیا ہے۔ چوکیدار امام بخش اس پورے کام کی نگرانی کر رہا تھا۔
Previous thread
Next thread