PakArt UrduLover
Thread Starter

in memoriam 1961-2020، May his soul rest in peace


Charismatic
Designer
Expert
Writer
Popular
ITD Observer
ITD Solo Person
ITD Fan Fictionest
ITD Well Wishir
ITD Intrinsic Person
Persistent Person
ITD Supporter
Top Threads Starter
- Joined
- May 9, 2018
- Local time
- 6:44 PM
- Threads
- 1,354
- Messages
- 7,658
- Reaction score
- 6,967
- Points
- 1,508
- Location
- Manchester U.K
- Gold Coins
- 124.79

برطانیہ میں یونیورسٹی آف ڈنڈی میں سیاسی افکار کی تاریخ کے پروفیسر انٹنی بلیک نے پیغمبر اسلام سے لے کر آج تک کے زمانے میں مسلم دنیا کے سیاسی افکار کو ’دی ہسٹری آف اسلامک پولیٹکل تھوٹ‘ کے عنوان سے کتابی صورت دی ہے۔ یہ کتاب تین سو پچہتر صفحوں پر محیط ہے اور پیپر بیک میں آکسفورڈ کی تازہ اشاعت ہے۔
اس کتاب میں مسلمانوں کے سیاسی افکار کے ماخذات، آپسی روابط کے ساتھ ساتھ سیاسی مفکروں کے نظریات اور ان کی اہمیت پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف نے موضوع کے مختلف پہلؤوں جیسے مذہب اور ریاستی طاقت، یونانی اور عربی فلسفہ، شیعیت اور تصوف کا سیاست سے تعلق پر بحث کی ہے اور ماضی میں مختلف مسلمان سلطنتوں جیسے سلجوقی، عثمانیہ اور مغل حکومتوں کے حوالہ سے مسلمانوں کی سیاسی سوچ کی تاریخ اور تجزیہ پیش کیا ہے۔
مسلم سیاسی افکار پر برصغیر کے اسکالر کی بھی تصانیف موجود ہیں لیکن انٹنی بلیک کی یہ کتاب ایک مختلف زاویہ نگاہ سے لکھی گئی ہے اور زیادہ تجزیاتی ہے۔ اس میں مسلمانوں کی سیاسی فکر کو جدید سیاسیات کے نظریات اور زبان میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف کے تجزیہ اور تبصروں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا نقطہ نظر اس موضوع پر نئے زاویوں سے سوچنے کی تحریک مہیا کرتی ہے۔
مصنف کا خیال ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کی سیاسی فکر منفرد دانشورانہ روایت کی حامل ہے کیونکہ اس میں مذہب اور سیاست میں ایک رشتہ موجود رہا ہے اور سیاست اور ریاست کو ملا کر ایک مشن بنایا گیا۔
مصنف کا دعوی ہے کہ اسلامی معاشروں اور حکمرانوں نے زکٰواۃ کے نام پر ٹیکس جمع کیے اور اُن کی فوجیں جہاد کے لیے وقف تھیں۔
مصنف کا کہنا ہے کہ مسلم دنیا میں سنہ آٹھ سو پچاس کے آس پاس یہ تبدیلی آئی کہ اقتدار سلطان اور علما میں تقسیم ہوگیا جس میں سلطان فوجی معاملات اور امن و امان چلاتا تھا جبکہ علما سماجی، عائلی اور تجارتی معاملات چلاتے تھے۔
مصنف کا موقف ہے کہ سیاسی اقتدار کی مذہب سے یہ علیحدگی عثمانی سلطنت میں زیادہ واضح طور پر سامنے آئی لیکن اسلام کا عسکری پہلو موجود رہا اور علما نے سلطنت کی بیرونی جارحیت پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔اینٹنی بلیک کا کہنا ہے کہ یورپ کے کلیسا کی طاقت کے مقابلہ میں اسلام میں علما کو کم طاقت ملی البتہ وہ زیادہ دیرپا ثابت ہوئی۔
مصنف کا کہنا ہے کہ اسلامی سیاسی فکر کی تاریخ میں نوقبائلیت اور پدرسری معاشرہ کی جدلیات موجود رہی اور یہ آج بھی قائم ہے۔ اسی سے سیاست اور مذہب کا رشتہ اور سلطان اور علما کا رشتہ جنم لیتا ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ قبائلیت اور پدرسری معاشرہ کے خواص ہی وہ چیزیں ہیں جو اسلامی سیاسی فکر کو یورپی فکر سے جدا کرتے ہیں اور اسی وجہ سے مسلمان ملکوں میں پبلک (عوامی) آفس، ریاست کا شخصی حکمرانوں سے الگ ہونا اور نجی اور عوامی کے فرق کے تصورات موجود نہیں۔
اینٹنی بلیک کا کہنا ہے کہ اسلام میں وراثت بڑے لڑکے کو جانے کا تصور نہیں تھا جس وجہ سے اقتدار کی منتقلی مشکلات کا باعث بنی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ انتخاب کے ذریعے جمہوریت میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ اقتدار عہدہ سے وابستہ ہے نہ کہ کسی مخصوص شخص سے جبکہ اسلامی معاشرہ میں مغربی اثر سے پہلے سلطان یا امام کو کسی آئینی بادشاہت یا جمہوریہ میں بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں اقتدار خدا اور تلوار سے جنم لیتا تھا اور فوجی اور مذہبی پیشوا اقتدار کے وچولے (بروکر) یا جوڑ توڑ کرنے والے ہوتے تھے۔
کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ قبائلی اور پدرسری ذہنیت کی وجہ سے ہی مسلمان معاشروں میں کارپوریٹ ادارے جیسے شہر، کاروباری کارپوریشنیں اور رضا کارانہ تنظیمیں وجود میں نہیں آسکیں جنہوں نے یورپ کی ترقی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
اینٹنی بلیک کہتے ہیں کہ مسلمان ملکوں میں ’فوجی سرپرستی کی حامل ریاستیں‘ بنیں جنہوں نے ایک آزاد بورژوازی کو پیدا نہیں ہونے دیا اور ان ملکوں میں بدوی یا خانہ بدوشی کی اقدار جیسے رشتہ داری اور سرپرستی کو فروغ دیا۔ مسلمان معاشروں کے ہر طبقہ میں جادو اور ستارہ شناسی میں اعتقاد عام ہوگیا اور اس کی اعلی ترین شکل صوفیا کے تصوف کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
مصنف کا کہنا ہے کہ مسلمان معاشرے میں سلطان ایک ایسی ریاست کا سربراہ تھا جو ’فوجی اور زرعی کمپلکس‘ پر مبنی تھی جیسے یورپ میں فیوڈل ریاست تھی۔تاہم بعد میں دنیائے اسلام روم کی سیاسی روایت سے آشنا نہیں ہوسکا جیسے ہند اور ایرن کی سیاسی روایت سے یورپ الگ رہا اور بارہ سو عیسوی کے بعد اسلامی دنیا اور عیسائی دنیا بالکل الگ الگ راستوں پر چل پڑے کیونکہ لاطینی یورپ میں ریاست اور سیاسی فکر کے نئے انداز ترقی پاگئے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ اسلامی سیاسی فکر میں دانشمندانہ اخلاق، سیاسی حقیقت پسندی اور انتظامی معاملات سے آگاہی کی روایت موجود رہی ہے جس کا اظہار مسلمان مفکر ابن مقّفیٰ کے ہاں ہوتا ہے اور اسلام میں عملی معاملات میں میزان (توازن) اور اعتدال (درمیانہ راستہ) کے تصورات پائے جاتے ہیں اور غزالی کے ہاں ان کا اظہار ہوا ہے۔مصنف کا کہنا ہے کہ یہ تصورات بنیادپرستی سے متضاد ہیں۔
اینٹنی بلیک کا کہنا ہے کہ سماجی سائنس کے ہر جدید ماہر کو ابن خلدون کو ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ اسے پتہ چل سکے کے اسلامی دنیا میں ساتویں صدی سے سترہویں صدی اور قدرے بعد تک کس قسم کا معاشرہ موجود تھا۔
اس کتاب میں مسلمانوں کے سیاسی افکار کے ماخذات، آپسی روابط کے ساتھ ساتھ سیاسی مفکروں کے نظریات اور ان کی اہمیت پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف نے موضوع کے مختلف پہلؤوں جیسے مذہب اور ریاستی طاقت، یونانی اور عربی فلسفہ، شیعیت اور تصوف کا سیاست سے تعلق پر بحث کی ہے اور ماضی میں مختلف مسلمان سلطنتوں جیسے سلجوقی، عثمانیہ اور مغل حکومتوں کے حوالہ سے مسلمانوں کی سیاسی سوچ کی تاریخ اور تجزیہ پیش کیا ہے۔
مسلم سیاسی افکار پر برصغیر کے اسکالر کی بھی تصانیف موجود ہیں لیکن انٹنی بلیک کی یہ کتاب ایک مختلف زاویہ نگاہ سے لکھی گئی ہے اور زیادہ تجزیاتی ہے۔ اس میں مسلمانوں کی سیاسی فکر کو جدید سیاسیات کے نظریات اور زبان میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف کے تجزیہ اور تبصروں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا نقطہ نظر اس موضوع پر نئے زاویوں سے سوچنے کی تحریک مہیا کرتی ہے۔
مصنف کا خیال ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کی سیاسی فکر منفرد دانشورانہ روایت کی حامل ہے کیونکہ اس میں مذہب اور سیاست میں ایک رشتہ موجود رہا ہے اور سیاست اور ریاست کو ملا کر ایک مشن بنایا گیا۔
مصنف کا دعوی ہے کہ اسلامی معاشروں اور حکمرانوں نے زکٰواۃ کے نام پر ٹیکس جمع کیے اور اُن کی فوجیں جہاد کے لیے وقف تھیں۔
مصنف کا کہنا ہے کہ مسلم دنیا میں سنہ آٹھ سو پچاس کے آس پاس یہ تبدیلی آئی کہ اقتدار سلطان اور علما میں تقسیم ہوگیا جس میں سلطان فوجی معاملات اور امن و امان چلاتا تھا جبکہ علما سماجی، عائلی اور تجارتی معاملات چلاتے تھے۔
مصنف کا موقف ہے کہ سیاسی اقتدار کی مذہب سے یہ علیحدگی عثمانی سلطنت میں زیادہ واضح طور پر سامنے آئی لیکن اسلام کا عسکری پہلو موجود رہا اور علما نے سلطنت کی بیرونی جارحیت پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔اینٹنی بلیک کا کہنا ہے کہ یورپ کے کلیسا کی طاقت کے مقابلہ میں اسلام میں علما کو کم طاقت ملی البتہ وہ زیادہ دیرپا ثابت ہوئی۔
مصنف کا کہنا ہے کہ اسلامی سیاسی فکر کی تاریخ میں نوقبائلیت اور پدرسری معاشرہ کی جدلیات موجود رہی اور یہ آج بھی قائم ہے۔ اسی سے سیاست اور مذہب کا رشتہ اور سلطان اور علما کا رشتہ جنم لیتا ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ قبائلیت اور پدرسری معاشرہ کے خواص ہی وہ چیزیں ہیں جو اسلامی سیاسی فکر کو یورپی فکر سے جدا کرتے ہیں اور اسی وجہ سے مسلمان ملکوں میں پبلک (عوامی) آفس، ریاست کا شخصی حکمرانوں سے الگ ہونا اور نجی اور عوامی کے فرق کے تصورات موجود نہیں۔
اینٹنی بلیک کا کہنا ہے کہ اسلام میں وراثت بڑے لڑکے کو جانے کا تصور نہیں تھا جس وجہ سے اقتدار کی منتقلی مشکلات کا باعث بنی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ انتخاب کے ذریعے جمہوریت میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ اقتدار عہدہ سے وابستہ ہے نہ کہ کسی مخصوص شخص سے جبکہ اسلامی معاشرہ میں مغربی اثر سے پہلے سلطان یا امام کو کسی آئینی بادشاہت یا جمہوریہ میں بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں اقتدار خدا اور تلوار سے جنم لیتا تھا اور فوجی اور مذہبی پیشوا اقتدار کے وچولے (بروکر) یا جوڑ توڑ کرنے والے ہوتے تھے۔
کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ قبائلی اور پدرسری ذہنیت کی وجہ سے ہی مسلمان معاشروں میں کارپوریٹ ادارے جیسے شہر، کاروباری کارپوریشنیں اور رضا کارانہ تنظیمیں وجود میں نہیں آسکیں جنہوں نے یورپ کی ترقی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
اینٹنی بلیک کہتے ہیں کہ مسلمان ملکوں میں ’فوجی سرپرستی کی حامل ریاستیں‘ بنیں جنہوں نے ایک آزاد بورژوازی کو پیدا نہیں ہونے دیا اور ان ملکوں میں بدوی یا خانہ بدوشی کی اقدار جیسے رشتہ داری اور سرپرستی کو فروغ دیا۔ مسلمان معاشروں کے ہر طبقہ میں جادو اور ستارہ شناسی میں اعتقاد عام ہوگیا اور اس کی اعلی ترین شکل صوفیا کے تصوف کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
مصنف کا کہنا ہے کہ مسلمان معاشرے میں سلطان ایک ایسی ریاست کا سربراہ تھا جو ’فوجی اور زرعی کمپلکس‘ پر مبنی تھی جیسے یورپ میں فیوڈل ریاست تھی۔تاہم بعد میں دنیائے اسلام روم کی سیاسی روایت سے آشنا نہیں ہوسکا جیسے ہند اور ایرن کی سیاسی روایت سے یورپ الگ رہا اور بارہ سو عیسوی کے بعد اسلامی دنیا اور عیسائی دنیا بالکل الگ الگ راستوں پر چل پڑے کیونکہ لاطینی یورپ میں ریاست اور سیاسی فکر کے نئے انداز ترقی پاگئے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ اسلامی سیاسی فکر میں دانشمندانہ اخلاق، سیاسی حقیقت پسندی اور انتظامی معاملات سے آگاہی کی روایت موجود رہی ہے جس کا اظہار مسلمان مفکر ابن مقّفیٰ کے ہاں ہوتا ہے اور اسلام میں عملی معاملات میں میزان (توازن) اور اعتدال (درمیانہ راستہ) کے تصورات پائے جاتے ہیں اور غزالی کے ہاں ان کا اظہار ہوا ہے۔مصنف کا کہنا ہے کہ یہ تصورات بنیادپرستی سے متضاد ہیں۔
اینٹنی بلیک کا کہنا ہے کہ سماجی سائنس کے ہر جدید ماہر کو ابن خلدون کو ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ اسے پتہ چل سکے کے اسلامی دنیا میں ساتویں صدی سے سترہویں صدی اور قدرے بعد تک کس قسم کا معاشرہ موجود تھا۔
Previous thread