- Joined
- May 5, 2018
- Local time
- 12:54 AM
- Threads
- 187
- Messages
- 5,158
- Reaction score
- 6,686
- Points
- 1,235
- Location
- آئی ٹی درسگاہ
- Gold Coins
- 1,415.45

میدان میں سیٹیاں اور ڈھول بج رہے تھے جس کی تھاپ پہ بعض تماش بین اچھل اچھل کر ایک ٹانگ پر رقص کرنے لگے۔۔۔ڈھول کی آواز نے سماں باندھا ہواتھا۔۔۔جو دیسی کھیل کے میدان میں الگ ایک پہچان رکھتاہے۔
ان بنگڑوں میں بعض دل جلوں کی آوازیں بڑی صاف تھیں ۔۔۔’’ہاری نہ وے‘‘کباب تہ سموسے سانوں بھی دینا‘‘۔۔۔۔’’اوے اج تو ہارا تے فر یاری مکی سمجھ‘‘۔
۔۔۔’’ آج کے دن مخالف ٹیم کابٹن دبادو‘‘۔
"ایک آواز بلند اور واضح تھی ،اگر" ہارے تو عارف والا میں قدم نہ رکھنا
اسو به خوشحاله نه شئ
یہ کھیل کا میدان تھا جس میں دو زبردست نامی گرامی پہلوانوں اور کھلاڑیوں کی ٹیمیں کے مابین رسہ کشی کا مقابلہ ہونے جارہاتھا۔۔۔
ایک طرف لالہ لئیق شاہ،افضل بھائی ،ناٹی میر ،حماد ،درویش اور دوسری جانب ڈاکٹر بھائی، ایکسٹو، ابودجانہ ،عمر اسلام ،اے ایم آمنے سامنے تھے
میدان میں جوش وخروش تھا، شائقین اپنی اپنی ٹیموں اور پسندیدہ کھلاڑیوں کو زبردست انداز میں حوصلہ افزائی کررہے تھے۔۔۔
کچھ ایسے جملے بھی کسے جارہے تھے جو تماش بینوں میں موجود ان کے دشمن ہی ہوسکتے تھے،حاسدین کو کھیل کھیل میں انتقام کا موقع بھی مل گیاتھا۔
یہ مقابلہ تفریح کیساتھ خوش خوراکی کا بھی ایک بہانہ تھا، جو ٹیم جیت جاتی اس کے حصے میں رسے سے باندھا گیاکھانے کا سامان آجاتا،چنانچہ بھوکے کھلاڑی جوش و جذبے سے زور آزمائی کرتے۔۔۔۔
اس پروگرام کے سپانسر چوہدری الیاس وغیرہ تھے جنہوں نے شکاری ٹیم کی خدمات حاصل کی تھیں،شیر مارنے کے بعد وہ پوری بستی ڈاکٹر بھائی کی فین ہوگئی تھی ۔
یہ ایک دعوت تھی لیکن کھیل بہانہ تھا
رسے کے درمیان ،مختلف بیگس میں کھانے کاسامان پیک کیاہوا لٹکاتھا،جس میں کباب،سموسے،چکن فرائی ،حلوے،بادام اور میوے وغیرہ شامل تھے۔۔۔مزید پلاؤ،بریانی ،میٹھے الگ تیار ہورہے تھے جو بعد میں پیش کیے جاتے۔۔۔
مقابلے سے پہلے حرارت بڑھانے کی نیت سے کھلاڑی ورزش کرنے لگے،کچھ الٹے سیدھے بھی ہوئے تاکہ ان کے جسم زور لگاتے ہوئے جلد تھکن کا شکار نہ ہوسکیں۔۔۔لالہ لئیق شاہ قدرے فربہ تھے انہیں ریفری انکل اردو لور نے کہا کہ کمر کے گرد رسہ لپیٹ کر آخر میں مڈھ(مطلب درخت کے تنے جیسی مضبوطی جس کی جڑیں زمین میں پھیل جاتی ہیں)بن جانا، لالہ نے کہاکہ وہ ایسا ہی کھلاڑی ہے

ایکسٹو کی نگاہیں
مطابق یہاں بھی جاسوسی شروع کردی۔۔۔۔
کچھ دیر کے بعدریفری انکل اردو لورنے سیٹی بجائی اور حاضرین کو متوجہ کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے سپیکر پر اعلان کیا۔
دوستو! آج کا مقابلہ بہت سخت ہے ،معصوم بچہ حماد اور ناٹی میر، اپنا پسندیدہ کھانا کسی صورت ہار کی شکل میں مخالف ٹیم کے حوالے نہیں کریں گے ،لیکن دوسری جانب ،ڈاکٹر ،اے ایم ،ایکسٹوابودجانہ طاقت و قوت میں کم نہیں،اس لیے یہ مقابلہ نہایت سخت ثابت ہوگا۔
تو آج پورے جوش خروش کے ساتھ ہم دیکھیں گے کہ کون سی ٹیم اچھے کھیل اور زیادہ طاقت کا مظاہر ہ کرتی ہے۔
ریفری انکل اردو لور نے کہا، رولز یہ ہیں کہ اگر تھک جائیں تو مقابلہ روک دیاجائے گا،پیاس لگے گی تو وقفہ ہوگا،اگر کسی کھلاڑی کو دورانِ مقابلہ تیل کی مالش مولش کرنی ہے تو وہ مجھے بتائے گاتاکہ کھیل روک کر اسے مالش مولش کا موقع دیاجائے۔۔۔
ایکسٹو نے کہا!

٭٭
مقابلہ شروع ہوجاتاہے ،سب سے آگے ڈاکٹربھائی اس کے پیچھے اے ایم اور پھر مزیدپلئیرز کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔ ،دوسری جانب حماد اس کے پیچھے ناٹی میر اور دیگر کھلاڑی مخالف ٹیم کو شکست فاش کے عزم سے میدان سجا دیتے ہیں۔۔
حماد نے چہرے سے ظاہر نہ ہونے دیا کہ اس کی نظریں کھانے اور دل میں اول کباب سے نپٹنے کے بعد حلوے سے دو دو ہاتھ کا منصوبہ بنا چکی ہیں ۔۔۔۔وہ کباب کی لذت اڑانے کے خیال میں تھا کہ اس کے کانوں میں ناٹی میر کی آواز پڑی’’استاد‘ تم نے جتنی بھی دعوتیں میری جیب سے اڑائی ہیں آج انہیں حلال کردو‘‘۔۔۔
حماد صرف کھانے کا ہی پہلوان نہ تھا بلکہ اس کے اندرواقعی بڑی قوت تھی۔۔۔اس کے چہرے پہ چھایا اعتماد ظاہر کرتاتھا کہ وہ اپنی ٹیم سمیت یہ مقابلہ جیتے گے۔۔۔۔ناٹی میر بھی طاقت ورجوان تھا۔۔۔(یہ دنوں ممبرز درسگاہ کے بہترین ممبرز تھے)۔
کھیل شروع ہوگیا۔۔۔زور میں دونوں ٹیمیں وقتی طور پہ برابر جارہی تھیں،۔۔۔۔مقابلہ زبردست ہورہا تھا ۔۔۔۔۔
ایسے لگ رہاتھا جیسے دونوں ٹیموں کے کھلاڑی زمین کے اندر بورنگ کرکے پانی نکال لائے گے
طاقت سے زیادہ کھلاڑیوں کی ہمت کی اہمیت تھی کہ وہ کتنی دیر تک استقامت کا مظاہرہ دیکھاتے ہیں۔۔۔چنانچہ کچھ دیر کی رسہ کشی کے بعد ایسے لگنے لگاکہ حماد کی ٹیم بھاری پڑرہی ہے۔۔۔
ڈاکٹر بھائی ’’اے ایم نے عقب سے آواز لگائی ‘‘بھ۔۔۔ بٹن دباکے۔۔۔ڈاکٹربھائی بھی آہنی چٹان سے کم نہ تھا ۔۔اس لیے بھرپور مست آواز سے بڑھک ماری۔۔۔سمجھ کرلومتھے کنال دے کر ۔۔ ۔۔میں حماد کو تھوڑا امید دلارہاہوں ۔۔۔اب تم پیچھے والوں سے کہو!قوت کا آخری ذرہ لگائیں۔۔۔مخالفین اپنی نفسیاتی جیت کا یقین کرچکے ہیں ۔۔۔
اے ایم کووہ جملہ یاد آیا ۔۔’’ہار نے کے بعدعارف والا کا رخ نہ کرنا‘‘۔۔اے ایم نے سوچا"ابھی ابھی تو شادی ہوئی ہے اس دا مطبل ہارنے کے بعد منجھی ایتھے ہی ڈاھوؤ۔۔۔۔؟ای کدی وی نئیں ہوسکدا۔۔۔۔اس سوچ نے اے ایم کے خون کو اس کے جسم میں ہنڈا ون ٹو فائیو
بنادیاتھا۔۔۔۔

مجمع میں سے ناعمہ وقار نے چیخ کرکہا"میر بھائی!ثابت کردو کہ آپ صرف کھانے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔۔۔
میر نےکہا"پھر سمجھو! ٹوٹ جائے رسہ میر کے ہاتھ سے کیسے چھوٹ جائے۔۔۔۔
اس کا مطلب تھا کہ رسہ ٹوٹے گالیکن میر کے ہاتھوں سے نہیں چھوٹے گا۔۔۔۔
یہ مقابلہ دیکھنے کھجل سائیں بھی آیاہواتھا، اس نے پکار کر ڈاکٹر بھائی سے کہا، دل پکڑکےبالک۔۔۔ رسہ تھام کےبالک۔۔۔۔
لالہ لئیق شاہ کی طرف گل خان نے جملہ اچھالا۔۔۔۔خوچہ ایسے کھینچ کہ بلڈوزر شرماجائے۔۔۔

لالہ لئیق شاہ خاموش تھا جس کی وجہ ایلفی والی قلفی تھی،کھجل سائیں نے انہیں قلفی کے اوپر ایلفی ڈال کر دی تھی تاکہ جہاں وہ کھڑے ہوں لوہے کی طرح جم کر کھڑے رہیں۔۔۔

کاٹ دار جملوں پر مشتمل ملی جلی آوازیں اب بھی کھلاڑیوں کے کانوں میں پڑ رہی تھیں جو انہیں مقابلہ جیتنے کی دھن پر قائم رکھے تھیں ۔۔۔
ڈاکٹربھائی اور ان کے کھلاڑیوں نے جب فیصلہ کن اور طاقت کاآخری ذرہ داؤ پر لگایا تو مقابلہ ایک بار پھر برابری کی سطح تک آپہنچا۔۔۔
عین اس وقت حماد کو کباب،سموسے حلوے ۔۔۔مخالفین کی جھولیوں میں جاتے محسوس ہوئے اور وہ اندر سے کانپ اٹھا۔۔۔اس نے بڑھک ماری’’ہائے۔۔۔۔‘‘کباب"۔۔ لفظ کباب سرگوشی میں بدل گیاتھا،لالہ لئیق شاہ کو کھجل سائیں کی قلفی پر اعتماد تھا اس لیے انہوں نے مذاقاً کہا۔۔۔جانے دو ہم اپنی جیب سے خرید کر کھائیں گے، افضل بھائی نے کہا ،توکیا مقابلہ ہار دیں؟۔
لالہ لئیق شاہ نے کہا،نہیں جب وہ رسہ کھینچتے ہیں تومیری کمر کو بڑا سکھ ملتا ہے، ۔۔۔افضل بھائی نے کہا ،ہمیں جیتنا ہے۔۔۔۔
لالہ لئیق شاہ نے بڑی مسرت اور سرور سے کہا۔۔۔چلو پھر زور لگائیں۔۔۔۔
رسہ بھی کھجل سائیں منڈی کا تھا۔۔عین درمیان سے ٹوٹ گیا۔۔۔ڈاکٹربھائی اور ان کے کھلاڑیوں کی ٹیم مشرق اور حماد اپنے کھلاڑیوں سمیت مغرب کی جانب پیٹھوں کے بل زمین بوس ہوئے۔۔۔
ریفری انکل اردو لور نے سیٹی بجاکر اعلان کرتے ہوئے کہا یہ مقابلہ بغیر کسی نتیجے کے دونوں ٹیمیں کے درمیان برابر برابر ختم کیاجارہاہے۔۔۔
نامنظور نامنظور۔۔۔مقابلہ پھر سے ہوگا،ناعمہ نے میچ فکسنگ پکارتے ہوئے شور کردیا،۔۔تماشبین بھی احتجاج میں شریک ہوگئے۔۔۔
ریفری انکل اردو لور نے کہا؛۔مقابلہ دوبارہ نہیں ہوگا،رسہ ٹوٹنے کا مطلب ہے کہ دونوں ٹیموں کا زور برابر ہے۔
ناعمہ نے کہا؛۔کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ دو "رسے" شامل کردئیے جائیں؟، انکل اردولور نے تجویز رد کرتے ہوئے دلیل دی کہ کھلاڑیوں کے ہاتھوں کی گرفت کمزور پڑے گی۔۔۔۔
لالہ لئیق شاہ بول پڑاکہ ہمارا وقت بہت قیمتی ہے،ہمیں اور رول بھی پلے کرنے ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر بھائی اور دیگر کھلاڑی نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی
چنانچہ سب نے کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجائیں۔۔۔
بعد میں لالہ لئیق شاہ نے کھجل سائیں سے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ رسہ کیسے ٹوٹ گیا ؟
کھجل سائیں نے کہا کہ قلفی ڈاکٹر بالک کے علم میں آچکی تھی، مجبوراً اسےبھی ایلفی والی قلفی کھلاناپڑی۔۔رسہ تو ٹوٹناہی تھا

@LAIQUE SHAH @Doctor @Syed Waqas @Afzal339 @UrduLover @Abu Dujana @Derwaish @SILENT.WALKER @silentjan @Dr Mechanical @Ahsan376 @Bail Gari @ناعمہ وقار @Ata Rafi @Zain UltimateX @X 2
Previous thread
Next thread