PakArt UrduLover
Thread Starter

in memoriam 1961-2020، May his soul rest in peace


Charismatic
Designer
Expert
Writer
Popular
ITD Observer
ITD Solo Person
ITD Fan Fictionest
ITD Well Wishir
ITD Intrinsic Person
Persistent Person
ITD Supporter
Top Threads Starter
- Joined
- May 9, 2018
- Local time
- 10:00 PM
- Threads
- 1,354
- Messages
- 7,658
- Reaction score
- 6,967
- Points
- 1,508
- Location
- Manchester U.K
- Gold Coins
- 124.03

پارٹ نمبر 1اسلام جس کامل ترین شکل میں اُمتِ محمدیہ کے سامنے آج موجود ہے، یہ بڑی کٹھن منزلیں طے کرکے یہاں پہنچا ہے اور دین اسلام کا یہ خوب صورت باغیچہ جس شان میں آج موجود ہے اور جس طرح یہ عالم اسلام پر سایہ فگن ہورہا ہے اور اس کے شیریں پھلوں اور پھولوں سے اُمت لذت اندوز ہو رہی ہے اور اس کی روح پر ور خوشبوؤں سے قلب ودماغ کو سکون نصیب ہورہا ہے، یہ شہداء احد اور شہداء بدر کے پاکیزہ اور مقدس خونوں سے سینچ سینچ کر- سر سبز وشاداب کیا گیا ہے، اس کے پیچھے امت محمدیہ کے جان نثاروں کی عظیم الشان تاریخ ہے۔ گھر بیٹھے بٹھائے یہ نعمت ہمیں اور آپ کو آسانی سے میسر آگئی ہے، ہمیں اس کی کیا قدر ہوسکتی ہے؟! اس کی قدر وقیمت تو صدیقؓ وفاروقؓ، عثمانؓ وعلیؓ، طلحہؓ وزبیرؓ، سید الشہداء حمزہؓ ، جعفر طیارؓ،ابن رواحہؓ وخالد ابن الولیدؓ (رضی اللہ عنہم) سے پوچھئے۔ اس کی داستانیں ابوعبیدہؓ، سعد بن ابی وقاصؓ اور ابو موسیٰ اشعریؓ سے سنئے۔ خبابؓ وخبیبؓ، بلالؓ وعمارؓ، سلمانؓ وابو فکیہہؓ کی المناک زبانوں سے معلوم کیجئے۔
آیئے! آپ بھی اسلام کی تاریخ کے سُنہری اوراق کی کچھ ورق گردانی کیجئے اور فاتحین اسلام کے عظیم الشان واقعات اور کارنامے پڑھئے، شاید کچھ اسلام کی قدر وقیمت کا احساس ہوجائے۔ کہنا یہ ہے کہ یہ نعمت بڑی مشکلوں سے ہم تک پہنچی ہے، لیکن افسوس! آج امت اس کی حفاظت کے فریضہ سے قطعاً قاصر، بلکہ غافل نظر آرہی ہے۔
اور زیادہ گہرائی میں جایئے تو اس دین الٰہی کی تاریخ اس سے بھی زیادہ قدیم نظر آتی ہے۔ حضرت آدم علی نبینا وعلیہ السلام نے اس دین اسلام کی خِشتِ اول رکھی ہے، ان کے بعد آنے والے حضرات انبیاء کرام ؑورسولان عظام ؑپر کیا گذری ہے؟ اس کا کچھ اندازہ حضرت رسالت پناہ رسول اللہ اکے اس ارشاد گرامی سے ہوسکتا ہے جو صحیح بخاری شریف میں امت کے سامنے ہے:
’’الأنبیاء أشد الناس بلائً ثم الأمثل فالأمثل‘‘۔
ترجمہ:۔’’سب سے زیادہ تکلیفیں انبیاء کرام علیہم السلام کو اٹھانی پڑتی ہیں، پھر جو ان کے جتنا زیادہ قریب ومماثل ہو اس کو‘‘۔
یعنی یہ ’’دین اسلام‘‘ ان تمام ادیانِ الٰہیہ سماویہ کی آخری کڑی ہے جو جامع ترین،کامل ترین شکل وصورت میں ہم تک پہنچا ہے۔ پھر صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ نے کس کس طرح اس چمن کی آبیاری فرمائی ہے، پھر محدثین کرامؒ نے حضرت نبی کریم ا کے انفاسِ قدسیہ اور احادیث نبویہ کی کس شان سے حفاظت فرمائی ہے اور کیا کیا محنتیں اس سلسلہ میں کی ہیں، ایک ایک حدیث کے سننے اور محفوظ کرنے کے لئے کیسے کیسے طویل وشاق سفر کئے ہیں اور پھر اعداء اسلام کی سازشوں اور تحریفات وتلبیسات سے کس طرح بچابچا کر امت کے سامنے یہ امانت پہنچائی ہے، حتی کہ اس کی حفاظت وصیانت کے لئے تقریباً ایک سو علوم ایجاد کئے۔ الغرض اس امانت الٰہی کو ان حضرات نے کس طرح سینوں سے لگایا اور کس طرح تصنیفی سفینوں (کتابوں) میں امت تک پہنچایا؟ یہ اسلامی تاریخ کازریں دور ہے۔ بخاریؒ، مسلمؒ، ابوداؤدؒ، ترمذیؒ، نسائیؒ، ابن ماجہؒ، دارمی ؒ،وغیرہ، وغیرہ تو اس گلستان کے چند پھول ہیں اور اسی بوستان کے چند باثمر پودے ہیں ،جن کے ثمرات سے آج امت فائدہ اٹھا رہی ہے۔ پھر اللہ جل مجدہ نے اس امانت الٰہی کے حِکم ومصالح کو سمجھنے سمجھانے کے لئے اور اس کی روح کو محکم بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے حضرات فقہاء کرامؒ کو پیدا فرمایا ہے، کہیں علقمہؒ واسودؒ وشعبہؒ وابراہیم نخعیؒ ہیں، کہیں قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ وسلیمان بن یسارؒ وعروۃ بن الزبیرؒ وسعید بن المسیبؒ ہیں، کہیں عطاء بن ابی رباحؒ ہیں، کہیں ابن سیرین ؒوحسن بصریؒ ہیں، کہاں تک گنوائیں۔ مدینہ، مکہ، کوفہ، بصرہ، بغداد، شام، مصر، وغیرہ بلادِ اسلامیہ کے فقہاء تابعینؒ کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس اُمت مرحومہ کے ان نفوسِ طیبہ کی جن کو صحابہؓ وتابعینؒ ومحدثین نے یہ امانت الٰہیہ سپرد کی ہے، پھر جو صحیح معنی میں ان اکابرِ امت کے علوم کے وارث بنے ہیں، ان کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔ شام میں امام عبد الرحمن اوزاعیؒ، مصر میں یزید بن ابی حبیبؒ ولیث بن سعدؒ، کوفہ میں سفیان ثوریؒ، امام ابوحنیفہؒ، محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیؒ، مدینہ میں امام مالک بن انسؒ اور ان کے شیخ ربیعہؒ وغیرہ وفقہاء سبعہؒ ہیں۔پھر کچھ عرصہ بعد یہ امانت محمد بن ادریس شافعیؒ اور احمد بن حنبلؒ کو سپرد ہوئی، جن کے آراء وافکار واقوال ‘اُمت کے سامنے مرتب ومحفوظ اور مدوَّن ہوکر پہنچے اور آج تک ان کے بتلائے ہوئے طریقوں اور مسلکوں پر امت عمل پیرا ہے۔ ان میں جن کو زیادہ قبول نصیب ہوا، بلکہ حدیث نبوی کی تعبیر کے مطابق ’’ثم وضع لہ القبول فی الأرض‘‘ کے مصداق بنے، وہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ہیں۔
آیئے! آپ بھی اسلام کی تاریخ کے سُنہری اوراق کی کچھ ورق گردانی کیجئے اور فاتحین اسلام کے عظیم الشان واقعات اور کارنامے پڑھئے، شاید کچھ اسلام کی قدر وقیمت کا احساس ہوجائے۔ کہنا یہ ہے کہ یہ نعمت بڑی مشکلوں سے ہم تک پہنچی ہے، لیکن افسوس! آج امت اس کی حفاظت کے فریضہ سے قطعاً قاصر، بلکہ غافل نظر آرہی ہے۔
اور زیادہ گہرائی میں جایئے تو اس دین الٰہی کی تاریخ اس سے بھی زیادہ قدیم نظر آتی ہے۔ حضرت آدم علی نبینا وعلیہ السلام نے اس دین اسلام کی خِشتِ اول رکھی ہے، ان کے بعد آنے والے حضرات انبیاء کرام ؑورسولان عظام ؑپر کیا گذری ہے؟ اس کا کچھ اندازہ حضرت رسالت پناہ رسول اللہ اکے اس ارشاد گرامی سے ہوسکتا ہے جو صحیح بخاری شریف میں امت کے سامنے ہے:
’’الأنبیاء أشد الناس بلائً ثم الأمثل فالأمثل‘‘۔
ترجمہ:۔’’سب سے زیادہ تکلیفیں انبیاء کرام علیہم السلام کو اٹھانی پڑتی ہیں، پھر جو ان کے جتنا زیادہ قریب ومماثل ہو اس کو‘‘۔
یعنی یہ ’’دین اسلام‘‘ ان تمام ادیانِ الٰہیہ سماویہ کی آخری کڑی ہے جو جامع ترین،کامل ترین شکل وصورت میں ہم تک پہنچا ہے۔ پھر صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ نے کس کس طرح اس چمن کی آبیاری فرمائی ہے، پھر محدثین کرامؒ نے حضرت نبی کریم ا کے انفاسِ قدسیہ اور احادیث نبویہ کی کس شان سے حفاظت فرمائی ہے اور کیا کیا محنتیں اس سلسلہ میں کی ہیں، ایک ایک حدیث کے سننے اور محفوظ کرنے کے لئے کیسے کیسے طویل وشاق سفر کئے ہیں اور پھر اعداء اسلام کی سازشوں اور تحریفات وتلبیسات سے کس طرح بچابچا کر امت کے سامنے یہ امانت پہنچائی ہے، حتی کہ اس کی حفاظت وصیانت کے لئے تقریباً ایک سو علوم ایجاد کئے۔ الغرض اس امانت الٰہی کو ان حضرات نے کس طرح سینوں سے لگایا اور کس طرح تصنیفی سفینوں (کتابوں) میں امت تک پہنچایا؟ یہ اسلامی تاریخ کازریں دور ہے۔ بخاریؒ، مسلمؒ، ابوداؤدؒ، ترمذیؒ، نسائیؒ، ابن ماجہؒ، دارمی ؒ،وغیرہ، وغیرہ تو اس گلستان کے چند پھول ہیں اور اسی بوستان کے چند باثمر پودے ہیں ،جن کے ثمرات سے آج امت فائدہ اٹھا رہی ہے۔ پھر اللہ جل مجدہ نے اس امانت الٰہی کے حِکم ومصالح کو سمجھنے سمجھانے کے لئے اور اس کی روح کو محکم بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے حضرات فقہاء کرامؒ کو پیدا فرمایا ہے، کہیں علقمہؒ واسودؒ وشعبہؒ وابراہیم نخعیؒ ہیں، کہیں قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ وسلیمان بن یسارؒ وعروۃ بن الزبیرؒ وسعید بن المسیبؒ ہیں، کہیں عطاء بن ابی رباحؒ ہیں، کہیں ابن سیرین ؒوحسن بصریؒ ہیں، کہاں تک گنوائیں۔ مدینہ، مکہ، کوفہ، بصرہ، بغداد، شام، مصر، وغیرہ بلادِ اسلامیہ کے فقہاء تابعینؒ کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس اُمت مرحومہ کے ان نفوسِ طیبہ کی جن کو صحابہؓ وتابعینؒ ومحدثین نے یہ امانت الٰہیہ سپرد کی ہے، پھر جو صحیح معنی میں ان اکابرِ امت کے علوم کے وارث بنے ہیں، ان کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔ شام میں امام عبد الرحمن اوزاعیؒ، مصر میں یزید بن ابی حبیبؒ ولیث بن سعدؒ، کوفہ میں سفیان ثوریؒ، امام ابوحنیفہؒ، محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیؒ، مدینہ میں امام مالک بن انسؒ اور ان کے شیخ ربیعہؒ وغیرہ وفقہاء سبعہؒ ہیں۔پھر کچھ عرصہ بعد یہ امانت محمد بن ادریس شافعیؒ اور احمد بن حنبلؒ کو سپرد ہوئی، جن کے آراء وافکار واقوال ‘اُمت کے سامنے مرتب ومحفوظ اور مدوَّن ہوکر پہنچے اور آج تک ان کے بتلائے ہوئے طریقوں اور مسلکوں پر امت عمل پیرا ہے۔ ان میں جن کو زیادہ قبول نصیب ہوا، بلکہ حدیث نبوی کی تعبیر کے مطابق ’’ثم وضع لہ القبول فی الأرض‘‘ کے مصداق بنے، وہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ہیں۔
Previous thread
Next thread