PakArt UrduLover
Thread Starter

in memoriam 1961-2020، May his soul rest in peace


Charismatic
Designer
Expert
Writer
Popular
ITD Observer
ITD Solo Person
ITD Fan Fictionest
ITD Well Wishir
ITD Intrinsic Person
Persistent Person
ITD Supporter
Top Threads Starter
- Joined
- May 9, 2018
- Local time
- 7:24 AM
- Threads
- 1,354
- Messages
- 7,658
- Reaction score
- 6,967
- Points
- 1,508
- Location
- Manchester U.K
- Gold Coins
- 123.73

post 1
شام کی لا ئبریریاں
شام کے بڑے اہم شہروں جیسے دمشق، حلب اورطرابلس میں کتب خانے تھے۔ کئی صدیوں سے دمشق علم کا گہوارہ چلا آرہا تھا۔ امیہ شہزادہ خالدبن یزید (705)، خلیفہ عبد الملک ابن مروان (705) اور عمر بن عبد العزیز (720) نے یہاں عمدہ کتب خانے تعمیر کروائے۔ خالد کو کتابیں جمع کرنے کا جنون تھا۔ اسلامی دنیا میں پہلی دفعہ اس نے کیمیا پر یونانی کتابوں کے تراجم کروائے۔ جامع بنی امیہ الکبیرکے کتب خانے میں نادر الوجودقیمتی مخطوطے تھے نیز یہاں تاریخی دستاویزات تھیں۔ مسجد کی بنیاد ولید اول (715) نے رکھی تھی۔ مصحف عثمانی یعنی حضرت عثمانؓ کا ترتیب کردہ قرآن اس لا ئبریری میں تھا۔ابن بطوطہ نے یہ قرآن مجید اپنے سفر کے دوران دیکھا تھا۔
شام کی لا ئبریریاں
شام کے بڑے اہم شہروں جیسے دمشق، حلب اورطرابلس میں کتب خانے تھے۔ کئی صدیوں سے دمشق علم کا گہوارہ چلا آرہا تھا۔ امیہ شہزادہ خالدبن یزید (705)، خلیفہ عبد الملک ابن مروان (705) اور عمر بن عبد العزیز (720) نے یہاں عمدہ کتب خانے تعمیر کروائے۔ خالد کو کتابیں جمع کرنے کا جنون تھا۔ اسلامی دنیا میں پہلی دفعہ اس نے کیمیا پر یونانی کتابوں کے تراجم کروائے۔ جامع بنی امیہ الکبیرکے کتب خانے میں نادر الوجودقیمتی مخطوطے تھے نیز یہاں تاریخی دستاویزات تھیں۔ مسجد کی بنیاد ولید اول (715) نے رکھی تھی۔ مصحف عثمانی یعنی حضرت عثمانؓ کا ترتیب کردہ قرآن اس لا ئبریری میں تھا۔ابن بطوطہ نے یہ قرآن مجید اپنے سفر کے دوران دیکھا تھا۔
سولہویں صدی میں دمشق میں 30 مدرسے اور20 کتب خانے تھے۔ اندلسی سیاح ابن جبیر نے اپنے سفر نامے رحلہ میں لکھا ہے تمام مدرسوں میں سے نور الدین زنگی مدرسہ اس قدر عالی شان تھا کہ سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔مذہبی علوم کے علاوہ یہاں فزکس، میتھ، اسٹرانومی، لٹریچر کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہاں چار میڈکل سکول اور ایک انجنئیرنگ سکول تھا جن کے ساتھ اکیڈیمک لا ئبریریاں تھیں۔
طرابلس کی لا ئبریری: شیعہ خاندان بنو عمار کے دورحکومت میں طرابلس علم کا گہوارہ تھا۔ بلکہ شہر علم و ادب کا مینارہ نور تھا۔ حسن بن عمار نے ایک سکول کی بنیاد رکھی جس کے ساتھ کتب خانہ تھا جس کی وجہ یہاں کئی علما وفضلا نے جنم لیا ۔ طرابلس کو دارا لعلم کہا جاتا تھا جہاں 180کاتب تھے جن میں سے30شب و روزکتابیں نقل کرتے تھے۔ اندازاََ یہاں 130,000مسودات تھے جن میں پچاس ہزار قرآن ، اور بیس ہزار تفاسیر القرآن تھیں۔صلیبیوں کے شہر فتح کرنے پر کتب خانے پامال کر دئے گئے۔
حلب میں بنو ہمدان کے حکمراں سیف الدولہ نے شہر میں کتب خانہ تعمیر کروایا۔ اس کا سائنس ایڈوائزر ابو نصر محمد ابن فارابی(872-950)تھا۔چیف لا ئبریرین محمد ابن ہاشم تھا۔
سمر قند اور بخارا کی لائبریری
سمر قند (ازبکستان) کو کتابوں کی تاریخ، ان کی تشہیر اور ان کی تحفظ میں اہم مقام حاصل ہے۔ یہاں پیپر مل ۷۵۱ میں تعمیر ہوئی تھی۔ کاغذ کی فراوانی سے کتابیں لکھنا نہ صرف آسان ہوگیا، بلکہ علم کی اشاعت دور دور تک ہو گئی۔ خواجہ نصیر الدین طوسی کی خواہش پر ہلاکو خاں نے آذربا ئیجان میں رصدگاہ تعمیر کروائی جس کے ساتھ پر شکوہ لا ئبریری تھی جس میں مسلم اور چینی سکالرز شانہ بہ شانہ تحقیق میں مصروف رہتے تھے۔ سقوط بغداد) (1258ء کے بعد سینکڑوں کتابیں یہاں لا ئی گئیں تھیں۔سمر قند اور بخارا سمانید سلطنت (819-999)کے کلچرل سینٹرز تھے۔ امام بخاری ؒ (870)بخارا کے رہنے والے تھے۔ سمانید حکمراں نوح ابن منصور(r976-997)نے بخارا میں عالی شان کتب خانہ تعمیر کروایا تھا۔ ابن سینا (1037)نے اس کتب خانے کی کتابوں سے اکتساب فیض کیا تھا جس کا احوال ابن خلکان(1282) کی وفیات الاعیان میں دیا ہے۔
احسان مسعود کے بقول بخارا میں ایک پبلک لا ئبریری تھی جہاں سکالرز کسی وقت بھی جا سکتے اور لا ئبریرین سے کہہ سکتے کہ ہمیں فلاں کتاب درکا ر ہے، اور پھر وہاں بڑے کشادہ ہال میں بیٹھ کر نوٹس لکھ سکتے تھے۔ (12)۔
غزنی کی لا ئبریری: سلطان محمود (998-1030)غزنوی کی لا ئبریری دنیا کی بہترین لا ئبریریوں میں سے تھی۔ سلطان محمود نے غزنی کوہندوستان سے لوٹ مار کر کے متمول شہر بنا دیا تھا۔ باوجودیکہ وہ جنگجو حکمراں تھا مگر اس کے ساتھ وہ علماو فضلا کا قدر دان اور ان کی سرپرستی کرتا تھا۔ البیرونی، الفارابی، فردوسی جیسے علم کے پروانے اس کے دربار کے جگمگاتے ہوئے ستارے تھے۔ سینٹرل ایشیا کے جگادری شاعراسدی، عنصری، عذاری ، پھر دو مؤرخ عتبی اور بیہقی اس کے دربار میں شب و روز اپنے کام میں مگن رہتے تھے۔ غزنی میں ایک لائبریری، میوزیم اور جامعہ وقف کی رقم سے چلتے تھے۔سلطان نے جب رے پر قبضہ کیا تو صا حب ابن العباد کی تمام کتابیں غزنی بھجوادیں جو 400 اونٹوں پر لادی گئیں تھیں۔ مجدالدولہ کی کتابیں50ا ونٹوں پر غزنی بھیجی گئیں تھیں۔
سمر قند اور بخارا کی لائبریری
سمر قند (ازبکستان) کو کتابوں کی تاریخ، ان کی تشہیر اور ان کی تحفظ میں اہم مقام حاصل ہے۔ یہاں پیپر مل ۷۵۱ میں تعمیر ہوئی تھی۔ کاغذ کی فراوانی سے کتابیں لکھنا نہ صرف آسان ہوگیا، بلکہ علم کی اشاعت دور دور تک ہو گئی۔ خواجہ نصیر الدین طوسی کی خواہش پر ہلاکو خاں نے آذربا ئیجان میں رصدگاہ تعمیر کروائی جس کے ساتھ پر شکوہ لا ئبریری تھی جس میں مسلم اور چینی سکالرز شانہ بہ شانہ تحقیق میں مصروف رہتے تھے۔ سقوط بغداد) (1258ء کے بعد سینکڑوں کتابیں یہاں لا ئی گئیں تھیں۔سمر قند اور بخارا سمانید سلطنت (819-999)کے کلچرل سینٹرز تھے۔ امام بخاری ؒ (870)بخارا کے رہنے والے تھے۔ سمانید حکمراں نوح ابن منصور(r976-997)نے بخارا میں عالی شان کتب خانہ تعمیر کروایا تھا۔ ابن سینا (1037)نے اس کتب خانے کی کتابوں سے اکتساب فیض کیا تھا جس کا احوال ابن خلکان(1282) کی وفیات الاعیان میں دیا ہے۔
احسان مسعود کے بقول بخارا میں ایک پبلک لا ئبریری تھی جہاں سکالرز کسی وقت بھی جا سکتے اور لا ئبریرین سے کہہ سکتے کہ ہمیں فلاں کتاب درکا ر ہے، اور پھر وہاں بڑے کشادہ ہال میں بیٹھ کر نوٹس لکھ سکتے تھے۔ (12)۔
غزنی کی لا ئبریری: سلطان محمود (998-1030)غزنوی کی لا ئبریری دنیا کی بہترین لا ئبریریوں میں سے تھی۔ سلطان محمود نے غزنی کوہندوستان سے لوٹ مار کر کے متمول شہر بنا دیا تھا۔ باوجودیکہ وہ جنگجو حکمراں تھا مگر اس کے ساتھ وہ علماو فضلا کا قدر دان اور ان کی سرپرستی کرتا تھا۔ البیرونی، الفارابی، فردوسی جیسے علم کے پروانے اس کے دربار کے جگمگاتے ہوئے ستارے تھے۔ سینٹرل ایشیا کے جگادری شاعراسدی، عنصری، عذاری ، پھر دو مؤرخ عتبی اور بیہقی اس کے دربار میں شب و روز اپنے کام میں مگن رہتے تھے۔ غزنی میں ایک لائبریری، میوزیم اور جامعہ وقف کی رقم سے چلتے تھے۔سلطان نے جب رے پر قبضہ کیا تو صا حب ابن العباد کی تمام کتابیں غزنی بھجوادیں جو 400 اونٹوں پر لادی گئیں تھیں۔ مجدالدولہ کی کتابیں50ا ونٹوں پر غزنی بھیجی گئیں تھیں۔
Previous thread
Next thread