- Joined
- Apr 25, 2018
- Local time
- 1:44 AM
- Threads
- 208
- Messages
- 595
- Reaction score
- 974
- Points
- 460
- Gold Coins
- 428.35

نو مسلم خاتون کا انٹرویو
قسط سوم
س: اس سلسلے میں بعض لوگ یہ حل بھی پیش کرتے ہیں کہ وہاں پر مسلمانوں کے لئے اجتماع کی خاص شکلیں پیدا کی جائیں، یعنی خاص قسم کی ایسی بستیاں اور محلے تیار کئے جائیں، جہاں صرف مسلمان ہی رہیں بسیں، تا کہ نئی نسل درست اور صحیح طریقے پر نشوونما پاسکے تو اسی طرح کے کسی حل میں آپ کو کوئی فائدہ نظر آتا ہے؟
ج: اگر مسلمان واقعی اس طرح کا کوئی پروگرام بنا لیں تو میرے خیال میں یہ اپنے آپ کو جیل میں بند کر دینے کے مترادف ہو گا، جیسا کہ یہود نے ”غیٹو“ میں کی ا، اور اسی طرح کی علیحدگی سے ہم گویا اسلام کو زندگی سے بھی الگ کر دیں گے، اور لوگوں سے بھی۔ اور اس کو ایک ایسی آڑ کے پیچھے ڈال دینے کے مرتک ہو جائیں گے، جہاں اس پردے کے پیچھے تو لوگ اسلام کے مطابق زندگی گزار رہے ہوں، مگر اس سے باہر والے اسلام کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں۔ ہمیں تو یہ چیز مطلوب ہونی چاہیے اور اس میں خوشی محسوس کرنی چائیے کہ لوگ ہماری زندگی کی حقیقت کو جانیں، اور ہماری گزران کی تفصیلات کو سمجھیں۔ اور میں خود دیکھتی ہوں کے جرمن لڑکیاں جب ہمارے گھر کو دیکھتیں اور دوسرے مسلمان گھروں کی طرح صاف ستھرا اور باقرینہ اور باسلیقہ پاتیں، تو اس سے وہ طبعی طور پر بہت متاثر ہوتیں، کہ اسلام اور مسلمانوں کا معاملہ تو حقیقت میں اس سے بالکل مختلف ہے، جس طرح کہ ہم نے جھوٹے اور حسد بھرے پروپیگنڈے کے ذریعے سنا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ یورپ کے زیادہ تر لوگ اپنی زندگی میں پر سکون نہیں ہیں، اورہ وہ بہت بڑی مشقت اور تنگی میں مبتلا ہیں۔ پس ہمارے ذمے لازم ہے کہ ہم ایسے موقعوں کی تلاش میں رہیں، جن کے ذریعے ہم ان کو اسلام کی حقیقی پہچان کراسکیں۔
س: آپ کے خیال میں مغرب میں اسلامی دعوت کو پھیلانے اوور اسلام کے وجود کو وہاں تقویت دینے کے لیے اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری کیا ہے جو انہیں ادا کرنی چاہیے؟
ج:اس سلسلے میں عام مسلمانوں اور مسلمان حکومتوں کے ذمہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، عام مسلمانوں کے ذمہ تو یہ ہے کہ وہ جب مغرب میں پڑھنے یا کام کرنے کے لئے جائیں تو سب سے پہلے وہ خود اپنے آپ کو اسلام کے نمونے کے طور پر پیش کریں۔ کیونکہ ہم نے جرمن لوگوں کے جو بہت سے اعتراضات اور سوالات سنے ان سب کا تعلق اسی چیز سے ہوتا ہے کہ تم (نو مسلم لوگ) اتنی سختی اور اس قدر تعصب کیوں برتتے ہو، حالانکہ ہم بہت سے (موروثی) مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ تمہاری طرح کی سختی نہیں کرتے، اور نہ ہی وہ تمہاری طراح کے مطالبات کرتے ہیں، بلکہ وہ تو بغیر کسی حرج اور تنگی کے شراب بھی پی لیتے ہیں، اور خنزیر کا گوشت بھی کھا لیتے ہیں، (والعیاذباللہ)، اور افسوس کہ بہت سے سلامی ملکوں کے لوگ وہاں جا کر اپنے اسلام کو بھول جاتے ہیں، اور جب واپس لوٹتے ہیں تو اسلام کے بغیر لوٹتے ہیں۔ اور سب سے بڑ ی مصیبت یہ ہے کہ یورپ میں جو کوئی غلطی یا گناہ کرتا ہے اسے اسلام کے سر تھوپ دیا جاتا ہے،اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ اسلام ہی کا قصور ہے (العیاذباللہ) اور اس طراح اس کا نقصان سب مسلمانوں کو پہنچتا ہے۔ رہ گئیں اسلامی حکومتیں تو ان کے لئے سب سے پہلے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ڈپلومیسی طریقوں اور سرکاری گفتگوؤں کے ذریعے مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو ان کے حقوق دلوانے کی کوشش کریں لیکن افسوس کہ میں نے اپنی پوری عمر میں کبھی یہ نہیں سنا کہ کسی بھی اسلامی حکومت نے ایسا کرنے کی کوشش کی ہو، اور اس ضمن میں یورپ کے ذمہ داروں سے یہ سوال تک کیا ہو کہ تم اپنے یہاں رہنے والے ان مسلمانوں سے کیوں لڑتے اور انہیں کیوں تکلیف پہنچاتے ہو، اور ان کو ان کے وہ حقوق کیوں نہیں دیتے جو قانون کی رو سے انہیں ملتے ہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ اس طرح کی پوچھ گچھ اور اس طرح کے روابط سے مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات میں کچھ بہتری ہو سکے گی۔
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں سے ہمیں جو مدد درکار ہے اور جس تعاون کی امید کی جاتی ہے وہ صرف یہی نہیں کی بیرونی ملکوں میں اسلام کے لیے کام کرنے والوں کی بس زبانی کلامی تعریف کر دی جائے کہ ان کا کام بہت اچھا اور اہم ہے، کیونکہ محض اس طرح کی باتیں کرنے سے ان کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا، بلکہ ہم ان ملکوں میں اسلام کے لیے کام کرنے والوں کے لیے حقیقی مدد کے خواہش گار ہیں، کیونکہ صحیح معنوں میں اور ٹھوس مدد نہ ہونے کے باعث وہاں کے اسلامی مراکز اوراسلامی مدارس بند ہونے کے قریب بہنچ چکے ہیں۔ اور مسلمانون کے بچے جہالت کے اندھیروں میں رہنے کے خوف میں ہیں۔ اور اس خطرے سے دوچار ہیں کہ تعلیم ہی سرے سے چھوڑ دیں یا پھر ان کلیسائی مدرسوں کے پنجے میں جا گریں جو چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں اور یہ سب اس امداد اور مدد کی کمی کی وجہ سے ہے جو اسلامی مدارس کی جاری رہنے میں درکار ہے، اسلامی حکومتوں کی چاہئے کہ وہ ان ملکون میں اسلام کی حمایت کے لئے فعال اور مؤثر قسم کی پیش رفت کریں، اور وہاں کے مسلمانوں کے حالات معلوم کرنے اور ان کی حقیقی ضرورتوں کا پتہ چلانے کی کوشش کریں، اور ان کی مشکلات کے حل اور ان سے سختی اور تنگی کو ہٹانے کے لئے بھر پور کردار ادا کرین، ورنہ کیا یہ بات قابل قبول ہو سکتی ہے کہ ان ملکوں کے مسلمان اپنے حقوق کے حصول کے لئے ایک اسلامی ملک سے دوسرے ملک میں چکر لگاتے اور کچھ درہم اکٹھے کرتے پھریں۔
قسط سوم
س: اس سلسلے میں بعض لوگ یہ حل بھی پیش کرتے ہیں کہ وہاں پر مسلمانوں کے لئے اجتماع کی خاص شکلیں پیدا کی جائیں، یعنی خاص قسم کی ایسی بستیاں اور محلے تیار کئے جائیں، جہاں صرف مسلمان ہی رہیں بسیں، تا کہ نئی نسل درست اور صحیح طریقے پر نشوونما پاسکے تو اسی طرح کے کسی حل میں آپ کو کوئی فائدہ نظر آتا ہے؟
ج: اگر مسلمان واقعی اس طرح کا کوئی پروگرام بنا لیں تو میرے خیال میں یہ اپنے آپ کو جیل میں بند کر دینے کے مترادف ہو گا، جیسا کہ یہود نے ”غیٹو“ میں کی ا، اور اسی طرح کی علیحدگی سے ہم گویا اسلام کو زندگی سے بھی الگ کر دیں گے، اور لوگوں سے بھی۔ اور اس کو ایک ایسی آڑ کے پیچھے ڈال دینے کے مرتک ہو جائیں گے، جہاں اس پردے کے پیچھے تو لوگ اسلام کے مطابق زندگی گزار رہے ہوں، مگر اس سے باہر والے اسلام کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں۔ ہمیں تو یہ چیز مطلوب ہونی چاہیے اور اس میں خوشی محسوس کرنی چائیے کہ لوگ ہماری زندگی کی حقیقت کو جانیں، اور ہماری گزران کی تفصیلات کو سمجھیں۔ اور میں خود دیکھتی ہوں کے جرمن لڑکیاں جب ہمارے گھر کو دیکھتیں اور دوسرے مسلمان گھروں کی طرح صاف ستھرا اور باقرینہ اور باسلیقہ پاتیں، تو اس سے وہ طبعی طور پر بہت متاثر ہوتیں، کہ اسلام اور مسلمانوں کا معاملہ تو حقیقت میں اس سے بالکل مختلف ہے، جس طرح کہ ہم نے جھوٹے اور حسد بھرے پروپیگنڈے کے ذریعے سنا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ یورپ کے زیادہ تر لوگ اپنی زندگی میں پر سکون نہیں ہیں، اورہ وہ بہت بڑی مشقت اور تنگی میں مبتلا ہیں۔ پس ہمارے ذمے لازم ہے کہ ہم ایسے موقعوں کی تلاش میں رہیں، جن کے ذریعے ہم ان کو اسلام کی حقیقی پہچان کراسکیں۔
س: آپ کے خیال میں مغرب میں اسلامی دعوت کو پھیلانے اوور اسلام کے وجود کو وہاں تقویت دینے کے لیے اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری کیا ہے جو انہیں ادا کرنی چاہیے؟
ج:اس سلسلے میں عام مسلمانوں اور مسلمان حکومتوں کے ذمہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، عام مسلمانوں کے ذمہ تو یہ ہے کہ وہ جب مغرب میں پڑھنے یا کام کرنے کے لئے جائیں تو سب سے پہلے وہ خود اپنے آپ کو اسلام کے نمونے کے طور پر پیش کریں۔ کیونکہ ہم نے جرمن لوگوں کے جو بہت سے اعتراضات اور سوالات سنے ان سب کا تعلق اسی چیز سے ہوتا ہے کہ تم (نو مسلم لوگ) اتنی سختی اور اس قدر تعصب کیوں برتتے ہو، حالانکہ ہم بہت سے (موروثی) مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ تمہاری طرح کی سختی نہیں کرتے، اور نہ ہی وہ تمہاری طراح کے مطالبات کرتے ہیں، بلکہ وہ تو بغیر کسی حرج اور تنگی کے شراب بھی پی لیتے ہیں، اور خنزیر کا گوشت بھی کھا لیتے ہیں، (والعیاذباللہ)، اور افسوس کہ بہت سے سلامی ملکوں کے لوگ وہاں جا کر اپنے اسلام کو بھول جاتے ہیں، اور جب واپس لوٹتے ہیں تو اسلام کے بغیر لوٹتے ہیں۔ اور سب سے بڑ ی مصیبت یہ ہے کہ یورپ میں جو کوئی غلطی یا گناہ کرتا ہے اسے اسلام کے سر تھوپ دیا جاتا ہے،اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ اسلام ہی کا قصور ہے (العیاذباللہ) اور اس طراح اس کا نقصان سب مسلمانوں کو پہنچتا ہے۔ رہ گئیں اسلامی حکومتیں تو ان کے لئے سب سے پہلے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ڈپلومیسی طریقوں اور سرکاری گفتگوؤں کے ذریعے مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو ان کے حقوق دلوانے کی کوشش کریں لیکن افسوس کہ میں نے اپنی پوری عمر میں کبھی یہ نہیں سنا کہ کسی بھی اسلامی حکومت نے ایسا کرنے کی کوشش کی ہو، اور اس ضمن میں یورپ کے ذمہ داروں سے یہ سوال تک کیا ہو کہ تم اپنے یہاں رہنے والے ان مسلمانوں سے کیوں لڑتے اور انہیں کیوں تکلیف پہنچاتے ہو، اور ان کو ان کے وہ حقوق کیوں نہیں دیتے جو قانون کی رو سے انہیں ملتے ہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ اس طرح کی پوچھ گچھ اور اس طرح کے روابط سے مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات میں کچھ بہتری ہو سکے گی۔
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں سے ہمیں جو مدد درکار ہے اور جس تعاون کی امید کی جاتی ہے وہ صرف یہی نہیں کی بیرونی ملکوں میں اسلام کے لیے کام کرنے والوں کی بس زبانی کلامی تعریف کر دی جائے کہ ان کا کام بہت اچھا اور اہم ہے، کیونکہ محض اس طرح کی باتیں کرنے سے ان کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا، بلکہ ہم ان ملکوں میں اسلام کے لیے کام کرنے والوں کے لیے حقیقی مدد کے خواہش گار ہیں، کیونکہ صحیح معنوں میں اور ٹھوس مدد نہ ہونے کے باعث وہاں کے اسلامی مراکز اوراسلامی مدارس بند ہونے کے قریب بہنچ چکے ہیں۔ اور مسلمانون کے بچے جہالت کے اندھیروں میں رہنے کے خوف میں ہیں۔ اور اس خطرے سے دوچار ہیں کہ تعلیم ہی سرے سے چھوڑ دیں یا پھر ان کلیسائی مدرسوں کے پنجے میں جا گریں جو چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں اور یہ سب اس امداد اور مدد کی کمی کی وجہ سے ہے جو اسلامی مدارس کی جاری رہنے میں درکار ہے، اسلامی حکومتوں کی چاہئے کہ وہ ان ملکون میں اسلام کی حمایت کے لئے فعال اور مؤثر قسم کی پیش رفت کریں، اور وہاں کے مسلمانوں کے حالات معلوم کرنے اور ان کی حقیقی ضرورتوں کا پتہ چلانے کی کوشش کریں، اور ان کی مشکلات کے حل اور ان سے سختی اور تنگی کو ہٹانے کے لئے بھر پور کردار ادا کرین، ورنہ کیا یہ بات قابل قبول ہو سکتی ہے کہ ان ملکوں کے مسلمان اپنے حقوق کے حصول کے لئے ایک اسلامی ملک سے دوسرے ملک میں چکر لگاتے اور کچھ درہم اکٹھے کرتے پھریں۔
Previous thread
Next thread