Silent Rose
Thread Starter
Staff member
⭐⭐⭐⭐⭐⭐
Designer
Emerging
Incredible
Courageous
Respectable
Hypersonic
سوال:
حضور! کیا انسان خیال پر کنڑول کر سکتا ہے؟
جواب:
*خیال پر کنٹرول صرف محبت والا کر سکتا ہے ۔ جب خیال ایک خیال میں گم ہو جائے تو پھر دوسرے خیال کی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ خیال نہ دُور کا ہے نہ قریب کا ہے بلکہ یہ نصیب کا ہے ۔ یہ نصیب کی منزل ہوتی ہے کہ جب کوئی چاہے عطا کر دے ۔ خدانخواستہ کسی کو گھر سے خبر آ جائے کہ فائر بریگیڈ کی ضرورت ہے تو اس کو کوئی غیر خیال کیسے آئے گا ، کبھی نہیں آئے گا ۔ تو اس کے لئے تو محویت پیدا ہو جائے گی کہ یہ کام پہلے کرنا ہے ۔ جب بہت ایمرجنسی پیدا ہو جائے تو آپ لوگوں میں محویت پیدا ہو جاتی ہے اور دوسرا خیال چلا جاتا ہے ۔تو آپ کو محو کرنے والی ایمرجنسیاں ہیں اور حادثے ہیں ۔ وہ وقت جب کہ آپ کو محو کرنے والی محبت پیدا ہو جائے تو پھر ہر شے کے اندر محویت ہو جائے گی ۔ تو کثرتِ خیال سے بچنے کا طریقہ واحد خیال ہے اور وحدتِ خیال سوائے محبوب کے اور کوئی نہیں دے سکتا کہ ہمہ حال اسی کا خیال ہو ، تنہائی میں اس کا خیال ہو اور محفل میں اس کا خیال ہو۔
یکسوئی کی بات پنہارن سے سیکھ
سب سکھیوں سے بات کرے پر دھیان گگر کے بیچ
تو پانی بھرنے والی لڑکی سر پر گھڑا لیے سب سہیلیوں سے باتیں کرتی جاتی ہے مگر اس کا دھیان گھڑے کی طرف ہوتا ہے کہ کہیں گھڑا نہ گر جائے اور یہ سلامت رہے۔
مطلب یہ کہ محبت والوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ محبوب کے خیال سے اِک لحظہ غافل نہیں ہوتے۔
تو جب ایسا خیال پیدا ہو گیا کہ انسان محبوب کے خیال سے اِک لحظہ بھی غافل نہیں رہا جس کے خیال میں باقی خیال اور باقی آرزوئیں نثار کی جا سکیں ۔ یوں کہہ لو کہ آپ کے پاس دس آرزوئیں ہیں یا پندرہ خواہشیں ہیں اور آخری وقت آ گیا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بس ایک آرزو پوری کر لو اور آپ یہ فٹا فٹ فیصلہ کرو کہ وہ کون سی آرزو ہے ، تو وہ جو آخری آرزو بچ جائے گی اس سے آپ کو محبت ہو گی ۔ اس آخری آرزو کو Develop کرنا ہی سارا کام ہے ۔ تو وہ آرزو جو باقی آرزوؤں کو کھا جائے وہ محبت ہے ۔
اب نہ زمیں نہ وہ زماں اب نہ مکاں نہ لامکاں
تُو نے جہاں بدل دیا آ کے مِری نگاہ میں
تو محبت میں نگاہ میں ایسی چیز آئی کہ زمین بھی بدل گئی ، آسمان بھی بدل گیا بلکہ دونوں جہاں ہی بدل گئے ۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کی نگاہ کو محبوب کی ہر شے بدل گئ ۔ تو محبت ایسی چیز ہوتی ہے جو محویت پیدا کرتی ہے ۔ وہ اس طرح ہے کہ انسان ہمہ حال اسی حال میں گم ہو جاتا ہے ۔ کس کے خیال میں؟ محبوب کے خیال میں
اب نہ کہیں نگاہ ہے اب نہ کوئی نگاہ میں
محو کھڑا ہوا ہوں میں حسن کی جلوہ گاہ میں
انتظار جب آتا ہے تو محویت کو ٹھنڈا کر دیتا ہے ۔ یہ انتظار کب آتا ہے؟ جب اللہ تعالیٰ مہربانی کرے ۔ یہ نصیب سے آتا ہے اور زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کسی گلی سے نکل کر اور کسی موڑ سے نکل کر کوئی بات آپ کو مسرور کر دے ۔ ایسے ایسے لوگ آئے اور وہ بڑے درویش تھے ، ان کا نام آپ کو بعد میں پتہ چلے گا ۔
ایک دفعہ ایک درویش ایک بازار سے گزرے تو وہاں پر "ٹک ٹکا ٹک" کی آواز سے ایک مشین چل رہی تھی ۔ تو درویش کی ایسی حالت ہو گئ کہ "اللہ" کا ذکر کرتے کرتے ان پر حال طاری ہو گیا ۔ تو مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر "اللہ ہی اللہ" ہو گئی ۔ کبھی کبھی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ طاری کر دے ، کبھی وہ احسان کر دیتا ہے، کبھی خوشی کا احسان کر دیتا ہے اور کبھی غم کا ایسا احسان عطا کر دیتا ہے کہ ایک غم ایسا آ پڑا کہ انسان جاگ اٹھا ۔ تو کبھی خوشیاں جگا دیتی ہیں اور کبھی غم جگا دیتا ہے ۔ یہ اللہ کے کام ہیں کہ جب چاہے بیدار کر دے ۔ تو کسی نے اللہ کو قریب آ کر دیکھا اور کسی نے دُور جا کر دیکھا
کسی نے آنکھ کے پردے میں پردہ دار کو دیکھا
کسی نے دار پر چڑھ کر جمالِ یار کو دیکھا
یہ اللہ کی مہربانیاں ہیں کہ جب جس کو چاہے عطا کر دے ۔ بہر حال یہ مانگنے کی بات نہیں ہے اور نہ ڈھونڈنے کا کام ہے ۔ بس یہ انتظار کا کام ہے ۔ انسان انتظار کرے اور جب چاہے گا وہ عطا کر دے گا ۔ وہ دیتا ضرور ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ پر مہربانی کرے اور آپ لوگوں کو بھی جلوہ دکھائے ۔ جلوہ محبوب کے چہرے میں ہو گا اور جلوہ اللہ کا ہو گا اور یہ برائے "اللہ" ہو گا اور برائے "الی اللہ" ہو گا ۔ اللہ تعالٰی مہربانی کرے ، یہ عطا ضرور ہو جاتی ہے
(گفتگو والیم 7 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صفحہ نمبر 103 ، 106)
حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ
حضور! کیا انسان خیال پر کنڑول کر سکتا ہے؟
جواب:
*خیال پر کنٹرول صرف محبت والا کر سکتا ہے ۔ جب خیال ایک خیال میں گم ہو جائے تو پھر دوسرے خیال کی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ خیال نہ دُور کا ہے نہ قریب کا ہے بلکہ یہ نصیب کا ہے ۔ یہ نصیب کی منزل ہوتی ہے کہ جب کوئی چاہے عطا کر دے ۔ خدانخواستہ کسی کو گھر سے خبر آ جائے کہ فائر بریگیڈ کی ضرورت ہے تو اس کو کوئی غیر خیال کیسے آئے گا ، کبھی نہیں آئے گا ۔ تو اس کے لئے تو محویت پیدا ہو جائے گی کہ یہ کام پہلے کرنا ہے ۔ جب بہت ایمرجنسی پیدا ہو جائے تو آپ لوگوں میں محویت پیدا ہو جاتی ہے اور دوسرا خیال چلا جاتا ہے ۔تو آپ کو محو کرنے والی ایمرجنسیاں ہیں اور حادثے ہیں ۔ وہ وقت جب کہ آپ کو محو کرنے والی محبت پیدا ہو جائے تو پھر ہر شے کے اندر محویت ہو جائے گی ۔ تو کثرتِ خیال سے بچنے کا طریقہ واحد خیال ہے اور وحدتِ خیال سوائے محبوب کے اور کوئی نہیں دے سکتا کہ ہمہ حال اسی کا خیال ہو ، تنہائی میں اس کا خیال ہو اور محفل میں اس کا خیال ہو۔
یکسوئی کی بات پنہارن سے سیکھ
سب سکھیوں سے بات کرے پر دھیان گگر کے بیچ
تو پانی بھرنے والی لڑکی سر پر گھڑا لیے سب سہیلیوں سے باتیں کرتی جاتی ہے مگر اس کا دھیان گھڑے کی طرف ہوتا ہے کہ کہیں گھڑا نہ گر جائے اور یہ سلامت رہے۔
مطلب یہ کہ محبت والوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ محبوب کے خیال سے اِک لحظہ غافل نہیں ہوتے۔
تو جب ایسا خیال پیدا ہو گیا کہ انسان محبوب کے خیال سے اِک لحظہ بھی غافل نہیں رہا جس کے خیال میں باقی خیال اور باقی آرزوئیں نثار کی جا سکیں ۔ یوں کہہ لو کہ آپ کے پاس دس آرزوئیں ہیں یا پندرہ خواہشیں ہیں اور آخری وقت آ گیا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بس ایک آرزو پوری کر لو اور آپ یہ فٹا فٹ فیصلہ کرو کہ وہ کون سی آرزو ہے ، تو وہ جو آخری آرزو بچ جائے گی اس سے آپ کو محبت ہو گی ۔ اس آخری آرزو کو Develop کرنا ہی سارا کام ہے ۔ تو وہ آرزو جو باقی آرزوؤں کو کھا جائے وہ محبت ہے ۔
اب نہ زمیں نہ وہ زماں اب نہ مکاں نہ لامکاں
تُو نے جہاں بدل دیا آ کے مِری نگاہ میں
تو محبت میں نگاہ میں ایسی چیز آئی کہ زمین بھی بدل گئی ، آسمان بھی بدل گیا بلکہ دونوں جہاں ہی بدل گئے ۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کی نگاہ کو محبوب کی ہر شے بدل گئ ۔ تو محبت ایسی چیز ہوتی ہے جو محویت پیدا کرتی ہے ۔ وہ اس طرح ہے کہ انسان ہمہ حال اسی حال میں گم ہو جاتا ہے ۔ کس کے خیال میں؟ محبوب کے خیال میں
اب نہ کہیں نگاہ ہے اب نہ کوئی نگاہ میں
محو کھڑا ہوا ہوں میں حسن کی جلوہ گاہ میں
انتظار جب آتا ہے تو محویت کو ٹھنڈا کر دیتا ہے ۔ یہ انتظار کب آتا ہے؟ جب اللہ تعالیٰ مہربانی کرے ۔ یہ نصیب سے آتا ہے اور زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کسی گلی سے نکل کر اور کسی موڑ سے نکل کر کوئی بات آپ کو مسرور کر دے ۔ ایسے ایسے لوگ آئے اور وہ بڑے درویش تھے ، ان کا نام آپ کو بعد میں پتہ چلے گا ۔
ایک دفعہ ایک درویش ایک بازار سے گزرے تو وہاں پر "ٹک ٹکا ٹک" کی آواز سے ایک مشین چل رہی تھی ۔ تو درویش کی ایسی حالت ہو گئ کہ "اللہ" کا ذکر کرتے کرتے ان پر حال طاری ہو گیا ۔ تو مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر "اللہ ہی اللہ" ہو گئی ۔ کبھی کبھی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ طاری کر دے ، کبھی وہ احسان کر دیتا ہے، کبھی خوشی کا احسان کر دیتا ہے اور کبھی غم کا ایسا احسان عطا کر دیتا ہے کہ ایک غم ایسا آ پڑا کہ انسان جاگ اٹھا ۔ تو کبھی خوشیاں جگا دیتی ہیں اور کبھی غم جگا دیتا ہے ۔ یہ اللہ کے کام ہیں کہ جب چاہے بیدار کر دے ۔ تو کسی نے اللہ کو قریب آ کر دیکھا اور کسی نے دُور جا کر دیکھا
کسی نے آنکھ کے پردے میں پردہ دار کو دیکھا
کسی نے دار پر چڑھ کر جمالِ یار کو دیکھا
یہ اللہ کی مہربانیاں ہیں کہ جب جس کو چاہے عطا کر دے ۔ بہر حال یہ مانگنے کی بات نہیں ہے اور نہ ڈھونڈنے کا کام ہے ۔ بس یہ انتظار کا کام ہے ۔ انسان انتظار کرے اور جب چاہے گا وہ عطا کر دے گا ۔ وہ دیتا ضرور ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ پر مہربانی کرے اور آپ لوگوں کو بھی جلوہ دکھائے ۔ جلوہ محبوب کے چہرے میں ہو گا اور جلوہ اللہ کا ہو گا اور یہ برائے "اللہ" ہو گا اور برائے "الی اللہ" ہو گا ۔ اللہ تعالٰی مہربانی کرے ، یہ عطا ضرور ہو جاتی ہے
(گفتگو والیم 7 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صفحہ نمبر 103 ، 106)
حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ
Previous thread
Next thread