Lovely Eyes
Thread Starter
⭐⭐⭐⭐⭐⭐
Staff member
Charismatic
Expert
Writer
Popular
Emerging
Fantabulous
The Iron Lady
- Joined
- Apr 28, 2018
- Local time
- 11:59 AM
- Threads
- 303
- Messages
- 1,215
- Reaction score
- 1,944
- Points
- 803
- Gold Coins
- 2,522.89

فلسطین کی سرزمین مسلمانوں ہی نہیں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے بھی مقدّس ترین ہے۔ یہ خطّہ اِن تینوں مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اِس ارضِ مقدّس کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہیں مسجدِ اقصیٰ ہے، جہاں حضرت محمّدﷺ کی امامت میں تمام انبیائے کرامؑ نے نماز ادا کی۔’’ ڈوم آف دی راک‘‘یعنی’’ قبۃ الصخرہ‘‘ بھی یہاں کی پہچان ہے، جہاں سے رسول اللّٰہﷺ، اللّٰہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے عرش پر تشریف لے گئے۔
یہیں رسول اکرمﷺ نے برّاق باندھا۔ نیز، اسی سرزمین پر حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحٰقؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت یعقوبؑ اور حضرت موسٰیؑ کے مزارات ہیں۔ یہودیوں کا تین ہزار سال پرانا قبرستان بھی یہیں ہے۔پھر یہ کہ عیسائیوں کا بیتُ اللحم میں پرانا، مقدّس ترین چرچ اور دیگر مذہبی یادگاریں ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمیں فلسطین اور اسرائیل میں آٹھ روز گزارنے کا موقع ملا۔ بنیادی طور پر یہ وِزٹ برطانیہ کی ایک این جی او کے زیرِ اہتمام تھا، جس کے چیئرمین، عبدالرّزاق ساجد کا مطمعِ نظر اسرائیلی مظالم کے شکار اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنا تھا۔
یہ چھوٹا سا خطّہ سیکڑوں سال سے جنگ و جدل کی لپیٹ میں ہے۔ اسے کبھی حضرت عُمر فاروقؓ نے فتح کیا، تو کبھی بخت نصر نے تاراج کر ڈالا۔ سلطان صلاح الدّین ایّوبی نے کئی صلیبی جنگوں کے بعد اسے فتح کرکے اس پر اسلام کا جھنڈا لہرایا، پھر اسے سازشوں کے ذریعے مسلمانوں سے چھین لیا گیا۔محلِ وقوع کے اعتبار سے فلسطین، برّاعظم ایشیا کے مغرب میں بحرِمُردار کے جنوبی کنارے پر واقع ہے۔
اس کے شمال میں لبنان اور جنوب میں خلیجِ عقبہ ہے۔ جنوب مغرب میں مِصر، مشرق میں شام اور اُردن سے سرحدیں ملتی ہیں، جب کہ مغرب میں وسیع ساحل پھیلا ہوا ہے۔ فلسطین کا رقبہ حنفہ اور غزّہ سمیت 27ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ ہمیں رملہ، الخلیل، نابلس، خان یونس، طومکرم، عقا، یافا اور غزہ دیکھنے کا موقع ملا۔
یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں یعنی بنی اسرائیل کو بہت سی نعمتوں سے نوازا، اُنھیں کئی بار اقتدار ملا، درجنوں انبیائے کرامؑ مبعوث فرمائے گئے، مگر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اس قوم جیسی پستی، بدکرداری، تنگ نظری، تعصب اور ذلّت کا مظاہرہ کسی اور قوم نے نہیں کیا۔ یہودیوں نے اپنی چال بازیوں، سازشوں سے بنی نوعِ انسان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور آج وہ مظلوم و بے بس فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے اُن کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ بہرحال،20ستمبر کو براستہ استنبول، اسرائیل کے تل ابیب ہوائی اڈے پہنچے، تو محسوس ہوا کہ وہ دنیا کے دیگر ائیرپورٹس جیسا نہیں تھا۔ عجیب سی خاموشی اور خوف کی فضا تھی۔
زیادہ تر لوگ معنی خیز نظروں سے ہم جیسے چہرے، مُہرے والوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دوسرے مُلکوں کی طرح زیادہ رش تھا اور نہ ہی لوگ اپنے اپنے حال میں مست تھے، یوں لگتا تھا جیسے ہر شخص، بلکہ در و دیوار بھی ہماری طرف مشتبہ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مانا کہ یہ خوف اور احساس ہمارے اندر کا بھی ہوسکتا تھا، مگر باقی افراد کی بھی کچھ ایسی ہی رائے تھی۔ لیگیج بیلٹ سے سامان اٹھانے کے بعد امیگریشن کائونٹر پہنچے، تو افسر کی عقابی نگاہوں نے سر تا پا ہمارا کچھ یوں جائزہ لیا، جیسے قصائی ذبح سے پہلے کھونٹے سے بندھی گائے کو دیکھتا ہے۔
لندن کے اسرائیلی سفارت خانے میں ایک دوست کے توسّط سے ہمارے پاسپورٹس کی کاپیاں چند روز قبل وہاں پہنچ چُکی تھیں اور یقیناً امیگریشن حکّام نے ہماری معلومات کمپیوٹر میں فیڈ کر رکھی تھیں، اِسی لیے ایک، دو سوالات کے سِوا ہمیں کسی دِقّت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ امیگریشن کاؤنٹر سے ٹیکسی کی علامات دیکھتے ہوئے باہر آگئے۔ ٹیکسی رینک میں ترتیب سے گاڑیاں کھڑی تھیں۔ شروع میں ایک سرکاری کائونٹر تھا، جس کے باہر ایک باوَردی خاتون کھڑی تھیں، جو باری آنے پر گاہک کے ہاتھ میں ایک چِٹ تھما دیتیں۔
ہمیں بھی چِٹ دی گئی۔ ڈرائیور نے سامان ٹیکسی میں رکھا، ہمارا ایڈریس نیویگیٹر میں ڈالا اور میٹر آن کیے بغیر چل پڑا۔ صاف ستھری لیکن سڑکیں سُنسان، آس پاس اونچی نیچی پہاڑیاں اور اُن پر ترتیب سے بنے مکانات، خاص طور پر بلند و بالا عمارتیں عجب سماں باندھ رہی تھیں۔ ہمارے استفسار پر ڈرائیور نے بتایا کہ’’اسرائیل میں جمعہ اور ہفتے کی چُھٹی ہوتی ہے، ہفتے کا پہلا ورکنگ ڈے اتوار ہے۔‘‘ اُس کا کہنا تھا کہ’’ آج چوں کہ جمعہ ہے، اس لیے ہر چیز بند ہے، حتیٰ کہ کوئی چھوٹی سی دُکان بھی کُھلی نہیں ملے گی۔‘‘ ہمارا قیام مقبوضہ بیتُ المقدِس( یروشلم) کے اُس علاقے میں تھا، جہاں کی پوری آبادی یہودیوں پر مشتمل ہے۔
یہ مقام چوں کہ القدس شریف(مسجدِ اقصیٰ) سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، اس لیے ہم نے رہائش کے لیے اُسے ترجیح دی تھی۔ مقبوضہ بیتُ المقدِس کے دونوں حصّے(نئے اور پرانے) دیکھنے کی تمنّا برسوں سے دل میں مچل رہی تھی۔ نئے شہر میں تو ہر وہ چیز ہے، جو جدید شہروں میں ہوتی ہے، لیکن پرانے شہر میں، جسے چاروں طرف سے اونچی اور قدیم فصیل گھیرے ہوئے ہے، مقدّس مقامات ہیں۔ اسی کے اندر قبۃ الصخرہ، مسجدِ اقصیٰ، عیسائیوں کا مقدّس ترین چرچ، کنیسۃ القیامہ اور یہودیوں کی دیوارِ گریہ ہیں۔ پچاس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہوٹل پہنچے۔
اگلے روز ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پتا چلا کہ اُس یہودی ڈرائیور نے ہم سے چار گُنا زاید کرایہ وصول کیا تھا۔ یہ سُن کر بہت دُکھ ہوا، کیوں کہ ہمیں اس کی توقّع نہیں تھی، لیکن اگلے چند روز میں کئی مسلمان، عیسائی، یہودی ٹیکسی ڈرائیورز اور دُکان داروں سے لین دین کے بعد اندازہ ہوا، وہاں بلالحاظ نسل ومذہب تقریباً سب سیّاحوں کو لُوٹتے ہیں۔
اسرائیل کے زیرِ تسلّط علاقوں کے ساتھ ، ہماری کوشش تھی کہ فلسطین یا مغربی کنارے کے اُن علاقوں میں بھی ضرور جایا جائے، جہاں اسرائیلی فوج، نہتّے فلسطینیوں کا خون بہا رہی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ علاقے سیکیوریٹی کے لحاظ سے انتہائی پُرخطر ہیں، پھر یہ کہ جب اُن علاقوں سے واپس اسرائیلی علاقے میں داخل ہوں گے، تو چیک پوسٹ پر سخت سوالات اور تفتیش کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن ہم نے اس سب کچھ کے باوجود وہاں جانے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ ہماری پہلی منزل نابلس تھی۔ ٹیکسی میں مغربی کنارے کے لیے روانہ ہوئے۔
راستے میں جریکو، رام اللّٰہ، ایریل اور دیگر کئی شہر آئے۔ نابلس پہنچے، تو زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ ہم یہاں ایک لندن کے دوست کے توسّط سے ایک فلسطینی سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوچُکا تھا، اِس لیے فلسطینی میزبان ہمیں شہر کے وسط میں قائم ایک اعلیٰ درجے کے ریستوران میں لے گیا۔ وہاں تقریباً یورپی ماحول تھا۔ نوجوان لڑکے، لڑکیوں کے لباس سے نہیں لگتا تھا کہ یہ خطّہ حالتِ جنگ میں ہے۔ لڑکیاں سرِعام شیشہ پی رہی تھیں۔ وہاں چہل قدمی کرتے ہوئے بھی یہی محسوس ہوا کہ ہم کسی یورپی شہر میں گھوم رہے ہیں۔
میکڈونلڈ سے لے کر دنیا کے ہر برانڈ کی فوڈ چین اور شاپنگ مال وہاں موجود تھے۔ برانڈڈ شاپس اور نئے ماڈل کی بیش قیمت گاڑیاں یعنی بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز عام دیکھی جاسکتی تھیں۔ غرض کہ غربت نام کی کوئی چیز وہاں دِکھائی نہیں دی۔ نابلس اور مغربی کنارے کے دیگر شہر بہ ظاہر تو خوش حال ہی نظر آئے، لیکن ہمارے میزبان کے مطابق اُن کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ اُن کی پوری ریاست عملاً اسرائیلی یہودیوں کے قبضے میں ہے، حتیٰ کہ فلسطینی شہروں میں پولیس یوں تو مسلمانوں پر مشتمل ہے، لیکن بنیادی طور پر ،وہ بھی اسرائیلیوں ہی کے ماتحت کام کرتی ہے۔
دیگر ممالک کے شہری یروشلم ہو یا اسرائیل کا کوئی دوسرا شہر، وہاں جا سکتے ہیں، فلسطینی اتھارٹی کے بھی کسی علاقے میں بلاجھجک جایا جاسکتا ہے، لیکن فلسطینی مسلمان اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں میں نہیں جاسکتے۔ اُنہیں صرف رمضان اور جمعے کے روز بیتُ المقدِس یعنی مسجدِ اقصیٰ جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ فلسطینیوں کا ایک اور مسئلہ پاسپورٹس کا بھی ہے۔ اُن کے پاس تُرکی، اُردن یا مِصر کے پاسپورٹ ہیں، لیکن یہ پاسپورٹس صرف بیرونِ ممالک سفر کے لیے دئیے گئے ہیں، اُن کی حیثیت مذکورہ ممالک کی شہریت کی نہیں ہے۔
یہیں رسول اکرمﷺ نے برّاق باندھا۔ نیز، اسی سرزمین پر حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحٰقؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت یعقوبؑ اور حضرت موسٰیؑ کے مزارات ہیں۔ یہودیوں کا تین ہزار سال پرانا قبرستان بھی یہیں ہے۔پھر یہ کہ عیسائیوں کا بیتُ اللحم میں پرانا، مقدّس ترین چرچ اور دیگر مذہبی یادگاریں ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمیں فلسطین اور اسرائیل میں آٹھ روز گزارنے کا موقع ملا۔ بنیادی طور پر یہ وِزٹ برطانیہ کی ایک این جی او کے زیرِ اہتمام تھا، جس کے چیئرمین، عبدالرّزاق ساجد کا مطمعِ نظر اسرائیلی مظالم کے شکار اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنا تھا۔
یہ چھوٹا سا خطّہ سیکڑوں سال سے جنگ و جدل کی لپیٹ میں ہے۔ اسے کبھی حضرت عُمر فاروقؓ نے فتح کیا، تو کبھی بخت نصر نے تاراج کر ڈالا۔ سلطان صلاح الدّین ایّوبی نے کئی صلیبی جنگوں کے بعد اسے فتح کرکے اس پر اسلام کا جھنڈا لہرایا، پھر اسے سازشوں کے ذریعے مسلمانوں سے چھین لیا گیا۔محلِ وقوع کے اعتبار سے فلسطین، برّاعظم ایشیا کے مغرب میں بحرِمُردار کے جنوبی کنارے پر واقع ہے۔
اس کے شمال میں لبنان اور جنوب میں خلیجِ عقبہ ہے۔ جنوب مغرب میں مِصر، مشرق میں شام اور اُردن سے سرحدیں ملتی ہیں، جب کہ مغرب میں وسیع ساحل پھیلا ہوا ہے۔ فلسطین کا رقبہ حنفہ اور غزّہ سمیت 27ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ ہمیں رملہ، الخلیل، نابلس، خان یونس، طومکرم، عقا، یافا اور غزہ دیکھنے کا موقع ملا۔
یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں یعنی بنی اسرائیل کو بہت سی نعمتوں سے نوازا، اُنھیں کئی بار اقتدار ملا، درجنوں انبیائے کرامؑ مبعوث فرمائے گئے، مگر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اس قوم جیسی پستی، بدکرداری، تنگ نظری، تعصب اور ذلّت کا مظاہرہ کسی اور قوم نے نہیں کیا۔ یہودیوں نے اپنی چال بازیوں، سازشوں سے بنی نوعِ انسان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور آج وہ مظلوم و بے بس فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے اُن کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ بہرحال،20ستمبر کو براستہ استنبول، اسرائیل کے تل ابیب ہوائی اڈے پہنچے، تو محسوس ہوا کہ وہ دنیا کے دیگر ائیرپورٹس جیسا نہیں تھا۔ عجیب سی خاموشی اور خوف کی فضا تھی۔
زیادہ تر لوگ معنی خیز نظروں سے ہم جیسے چہرے، مُہرے والوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دوسرے مُلکوں کی طرح زیادہ رش تھا اور نہ ہی لوگ اپنے اپنے حال میں مست تھے، یوں لگتا تھا جیسے ہر شخص، بلکہ در و دیوار بھی ہماری طرف مشتبہ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مانا کہ یہ خوف اور احساس ہمارے اندر کا بھی ہوسکتا تھا، مگر باقی افراد کی بھی کچھ ایسی ہی رائے تھی۔ لیگیج بیلٹ سے سامان اٹھانے کے بعد امیگریشن کائونٹر پہنچے، تو افسر کی عقابی نگاہوں نے سر تا پا ہمارا کچھ یوں جائزہ لیا، جیسے قصائی ذبح سے پہلے کھونٹے سے بندھی گائے کو دیکھتا ہے۔
لندن کے اسرائیلی سفارت خانے میں ایک دوست کے توسّط سے ہمارے پاسپورٹس کی کاپیاں چند روز قبل وہاں پہنچ چُکی تھیں اور یقیناً امیگریشن حکّام نے ہماری معلومات کمپیوٹر میں فیڈ کر رکھی تھیں، اِسی لیے ایک، دو سوالات کے سِوا ہمیں کسی دِقّت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ امیگریشن کاؤنٹر سے ٹیکسی کی علامات دیکھتے ہوئے باہر آگئے۔ ٹیکسی رینک میں ترتیب سے گاڑیاں کھڑی تھیں۔ شروع میں ایک سرکاری کائونٹر تھا، جس کے باہر ایک باوَردی خاتون کھڑی تھیں، جو باری آنے پر گاہک کے ہاتھ میں ایک چِٹ تھما دیتیں۔
ہمیں بھی چِٹ دی گئی۔ ڈرائیور نے سامان ٹیکسی میں رکھا، ہمارا ایڈریس نیویگیٹر میں ڈالا اور میٹر آن کیے بغیر چل پڑا۔ صاف ستھری لیکن سڑکیں سُنسان، آس پاس اونچی نیچی پہاڑیاں اور اُن پر ترتیب سے بنے مکانات، خاص طور پر بلند و بالا عمارتیں عجب سماں باندھ رہی تھیں۔ ہمارے استفسار پر ڈرائیور نے بتایا کہ’’اسرائیل میں جمعہ اور ہفتے کی چُھٹی ہوتی ہے، ہفتے کا پہلا ورکنگ ڈے اتوار ہے۔‘‘ اُس کا کہنا تھا کہ’’ آج چوں کہ جمعہ ہے، اس لیے ہر چیز بند ہے، حتیٰ کہ کوئی چھوٹی سی دُکان بھی کُھلی نہیں ملے گی۔‘‘ ہمارا قیام مقبوضہ بیتُ المقدِس( یروشلم) کے اُس علاقے میں تھا، جہاں کی پوری آبادی یہودیوں پر مشتمل ہے۔
یہ مقام چوں کہ القدس شریف(مسجدِ اقصیٰ) سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، اس لیے ہم نے رہائش کے لیے اُسے ترجیح دی تھی۔ مقبوضہ بیتُ المقدِس کے دونوں حصّے(نئے اور پرانے) دیکھنے کی تمنّا برسوں سے دل میں مچل رہی تھی۔ نئے شہر میں تو ہر وہ چیز ہے، جو جدید شہروں میں ہوتی ہے، لیکن پرانے شہر میں، جسے چاروں طرف سے اونچی اور قدیم فصیل گھیرے ہوئے ہے، مقدّس مقامات ہیں۔ اسی کے اندر قبۃ الصخرہ، مسجدِ اقصیٰ، عیسائیوں کا مقدّس ترین چرچ، کنیسۃ القیامہ اور یہودیوں کی دیوارِ گریہ ہیں۔ پچاس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہوٹل پہنچے۔
اگلے روز ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پتا چلا کہ اُس یہودی ڈرائیور نے ہم سے چار گُنا زاید کرایہ وصول کیا تھا۔ یہ سُن کر بہت دُکھ ہوا، کیوں کہ ہمیں اس کی توقّع نہیں تھی، لیکن اگلے چند روز میں کئی مسلمان، عیسائی، یہودی ٹیکسی ڈرائیورز اور دُکان داروں سے لین دین کے بعد اندازہ ہوا، وہاں بلالحاظ نسل ومذہب تقریباً سب سیّاحوں کو لُوٹتے ہیں۔
اسرائیل کے زیرِ تسلّط علاقوں کے ساتھ ، ہماری کوشش تھی کہ فلسطین یا مغربی کنارے کے اُن علاقوں میں بھی ضرور جایا جائے، جہاں اسرائیلی فوج، نہتّے فلسطینیوں کا خون بہا رہی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ علاقے سیکیوریٹی کے لحاظ سے انتہائی پُرخطر ہیں، پھر یہ کہ جب اُن علاقوں سے واپس اسرائیلی علاقے میں داخل ہوں گے، تو چیک پوسٹ پر سخت سوالات اور تفتیش کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن ہم نے اس سب کچھ کے باوجود وہاں جانے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ ہماری پہلی منزل نابلس تھی۔ ٹیکسی میں مغربی کنارے کے لیے روانہ ہوئے۔
راستے میں جریکو، رام اللّٰہ، ایریل اور دیگر کئی شہر آئے۔ نابلس پہنچے، تو زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ ہم یہاں ایک لندن کے دوست کے توسّط سے ایک فلسطینی سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوچُکا تھا، اِس لیے فلسطینی میزبان ہمیں شہر کے وسط میں قائم ایک اعلیٰ درجے کے ریستوران میں لے گیا۔ وہاں تقریباً یورپی ماحول تھا۔ نوجوان لڑکے، لڑکیوں کے لباس سے نہیں لگتا تھا کہ یہ خطّہ حالتِ جنگ میں ہے۔ لڑکیاں سرِعام شیشہ پی رہی تھیں۔ وہاں چہل قدمی کرتے ہوئے بھی یہی محسوس ہوا کہ ہم کسی یورپی شہر میں گھوم رہے ہیں۔
میکڈونلڈ سے لے کر دنیا کے ہر برانڈ کی فوڈ چین اور شاپنگ مال وہاں موجود تھے۔ برانڈڈ شاپس اور نئے ماڈل کی بیش قیمت گاڑیاں یعنی بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز عام دیکھی جاسکتی تھیں۔ غرض کہ غربت نام کی کوئی چیز وہاں دِکھائی نہیں دی۔ نابلس اور مغربی کنارے کے دیگر شہر بہ ظاہر تو خوش حال ہی نظر آئے، لیکن ہمارے میزبان کے مطابق اُن کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ اُن کی پوری ریاست عملاً اسرائیلی یہودیوں کے قبضے میں ہے، حتیٰ کہ فلسطینی شہروں میں پولیس یوں تو مسلمانوں پر مشتمل ہے، لیکن بنیادی طور پر ،وہ بھی اسرائیلیوں ہی کے ماتحت کام کرتی ہے۔
دیگر ممالک کے شہری یروشلم ہو یا اسرائیل کا کوئی دوسرا شہر، وہاں جا سکتے ہیں، فلسطینی اتھارٹی کے بھی کسی علاقے میں بلاجھجک جایا جاسکتا ہے، لیکن فلسطینی مسلمان اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں میں نہیں جاسکتے۔ اُنہیں صرف رمضان اور جمعے کے روز بیتُ المقدِس یعنی مسجدِ اقصیٰ جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ فلسطینیوں کا ایک اور مسئلہ پاسپورٹس کا بھی ہے۔ اُن کے پاس تُرکی، اُردن یا مِصر کے پاسپورٹ ہیں، لیکن یہ پاسپورٹس صرف بیرونِ ممالک سفر کے لیے دئیے گئے ہیں، اُن کی حیثیت مذکورہ ممالک کی شہریت کی نہیں ہے۔
Previous thread
Next thread