Lovely Eyes
Thread Starter
⭐⭐⭐⭐⭐⭐
Staff member
Charismatic
Expert
Writer
Popular
Emerging
Fantabulous
The Iron Lady
- Joined
- Apr 28, 2018
- Local time
- 8:01 AM
- Threads
- 303
- Messages
- 1,215
- Reaction score
- 1,945
- Points
- 803
- Gold Coins
- 2,524.28

اسلامی فن تعمیر کا شاہکار مسجد بھونگ
بھونگ مسجد تحصیل صادق آباد ضلع رحیم یار خان میں واقع ایک گاؤں بھونگ میں موجود ہے۔ یہ مسجد بہاولپور سے 240 کلو میٹر اور رحیم یار خان سے تقریباً 55 کلو میٹر دور واقع ہے۔
اپنے عمدہ ڈیزائن، منفرد طرزِ تعمیر اور جاذبِ نظر خطاطی کی وجہ سے اس مسجد کو خاص شہرت حاصل ہے۔ سردار رئیس غازی محمد نے یہ مسجد1930ء میں تعمیر کروانا شروع کی۔
آپ کے جد امجد حضرت بہاوالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کے خلفاء میں سے تھے۔

رئیس غازی محمد نے مسجد کی تعمیر کے ایک ایک مرحلے پر ذاتی دلچسپی لی۔ البتہ مسجد کی تعمیر کی نگرانی کے لئے ماسٹر عبدالحمید کو مقرر کیا جنہوں نے نہایت محنت اور توجہ سے مسجد کی تعمیر کی نگرانی کی۔
مسجد کی تعمیر کیلئے آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور دیگر ممالک سے سنگِ سرخ، سنگِ مر مر، سنگِ خارا، سنگِ سرمئی اور سنگِ سیاہ منگوائے گئے۔

یہ مسجد 1930ء سے 1970ء تک تقریباً چالیس سال میں مکمل ہوئی۔ ان پچاس سالوں میں ہزاروں کاریگروں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا جن کا تعلق پاکستان اور انڈیا سے تھا۔
تین نسلوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ تمام کاریگروں کو ان کی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر اْجرت دی جاتی تھی۔
تب صادق آباد سے بھونگ تک مناسب ذرائع نقل و حمل موجود نہ تھے۔ نہ ہی پختہ سڑک تھی۔ لہٰذا بھاری مشینری اور تعمیراتی سامان صادق آباد ریلوے اسٹیشن سے بھونگ تک تقریباً 20 کلو میٹر کچے راستوں پر بیل گاڑیوں اور اونٹوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔

رئیس غازی محمد مختلف ممالک میں جاتے، وہاں کی مساجد دیکھتے اور جو چیز پسند آ جاتی اْس کے مطابق مسجد کی تعمیر میں تبدیلی کرواتے رہتے۔
اس طرح مسجد کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلی کی گئی۔ کئی حصوں کو دوبارہ بلکہ سہ بارہ بھی نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔
1950ء میں ایک نئے مسئلے کی نشاندہی ہوئی کہ سیم کی وجہ سے مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔

مسجد کی تعمیر کے دوران ہی 1975ء میں رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا۔ اْن کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے رئیس شبیر محمد نے مسجد کا کام کو آگے بڑھایا۔
1982ء میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔
دنیا بھر سے سیاح اس مسجد کو دیکھنے آنے لگے۔ اس کی خوبصورتی اور انفرادیت کی وجہ سے 1986ء میں اسے تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔
12 مئی 2004ء کو حکومت پاکستان نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ بھونگ مسجد میں ایک وسیع دارالمطالعہ، مدرسہ اور وہ حجرہ بھی موجود ہے جہاں رئیس غازی محمد عبادت کیا کرتے تھے۔
مسجد میں داخل ہونے والا مرکزی دروازہ مشہد میں حضرت امام رضا کے مزار کے صدر دروازے جیسا ہے۔ اندر کئی ایکڑ پر مشتمل فواروں سے مزین وسیع لان ہے۔

یہاں بیک وقت دو ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ایک بڑے گنبد کے نیچے خواتین کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ مخصوص ہے جو خواتین کی جمعہ مسجد کہلاتی ہے۔
مسجد کے تمام دروازے ہاتھی دانت کے نفیس اور باریک کام سے مزین ہیں۔
مسجد کے برآمدے میں تقریباً 500 نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ برآمدہ اٹھارہ ستونوں پر مشتمل ہے۔ ہر ستون ایک ہی جیسے قدرتی رنگ پر مشتمل آٹھ فٹ بلند ہے۔
مرکزی محراب کی تزئین و آرائش میں خالص سونا‘ چاندی اور قیمتی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ صندل کی لکڑی کا نہایت نفیس اور دیدہ زیب کام کیا گیا ہے۔
دلکش نقش و نگار، خوبصورت گلکاری اور منفرد ڈیزائن پر مشتمل یہ مسجد سیاحوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔
یہاں قریبی شہروں کے علاوہ ملک بھر سے زائرین پورے سال آتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ممالک سے بھی زائرین اور سیاح یہاں سالہا سال سے آ رہے ہیں۔
ایم پی اے رئیس محبوب احمد نے سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد رئیس غازی محمد نے مسجد کی منفرد تعمیر کے لئے دن رات محنت کی۔
ان کے مطابق مسجد کے اخراجات کے لئے انکے والد نے اپنی ہی زندگی میں ایک مخصوص جائیداد وقف کر رکھی تھی اور اسکی آمدنی سے ہی مسجد کی خدمت کی جاتی ہے۔
Previous thread
Next thread