PakArt UrduLover
Thread Starter
in memoriam 1961-2020، May his soul rest in peace



Charismatic
Designer
Expert
Writer
Popular
Persistent Person
ITD Supporter
ITD Observer
ITD Solo Person
ITD Fan Fictionest
ITD Well Wishir
ITD Intrinsic Person
- Joined
- May 9, 2018
- Local time
- 6:44 PM
- Threads
- 1,353
- Messages
- 7,658
- Reaction score
- 6,974
- Points
- 1,508
- Location
- Manchester U.K
- Gold Coins
- 124.01


گداگروں کو صدقہ وخیرات دینا کیسا ہے؟
”اور جو بھی تم بھلی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اس کافائدہ خود پا ؤ گے۔تمہیں صرف اللہ کی رضا مندی طلب کرنے کے لیے خیرات کرنی چاہئے اور جوبھی تم بھلی چیز خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا
مُبشّر احمد رَبّاَنی
اللہ وحدہ لاشرک لہ نے صدقات وخیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاہے:
”اور جو بھی تم بھلی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اس کافائدہ خود پا ؤ گے۔تمہیں صرف اللہ کی رضا مندی طلب کرنے کے لیے خیرات کرنی چاہئے اور جوبھی تم بھلی چیز خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔صدقات کے مستحق صرف وہ فقراء ہیں جو اللہ کی راہ (جہاد )میں روک دیے گئے۔
جو زمین میں(کاروبار وغیرہ)کے لیے چل پھر نہیں سکتے‘نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مال دار خیال کرتے ہیں ‘آپ ان کی علامت سے انہیں پہچان لیں گے ۔وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو کچھ مال خرچ کروگے بے شک اللہ تعالیٰ اسے جاننے والا ہے ۔“
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہمارے صدقات وخیرات اور اموال کے مستحق وہ لوگ ہیں جو جہاد فی سبیل اللہ میں روکے گئے ہیں اور اتنے فقراء ومحتاج ہیں کہ ضرورت کے ہوتے ہوئے بھی لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر دست سوال دراز نہیں کرتے کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا نا ان کی خودداری اور عزت نفس کے خلاف ہے اس آیت کریمہ میں فقیر وغریب کے وصف جو ذکر کیے گئے ہیں وہ انتہائی قابل توجہ ہیں ۔
(ا)التعفف(۲)الحاف
تعفف کا مطلب سوال سے بچنا یعنی فقروغربت کے باوجود لوگوں سے سوال کرنے سے گریز کریں گے ۔کیونکہ شریعت اسلامیہ میں بھیک مانگنے کو پسند نہیں کیا گیا۔زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
”تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی پکڑ کر پہاڑ پر جائے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا لاد کر لائے اور اسے فروخت کرکے اس کی قیمت پر قناعت کرے تو اس کے حق میں لوگوں سے سوال کرنے سے بہتر ہے لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔
یہی حدیث ابوھریرة رضی اللہ عنہ سے:
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص میری ایک بات قبول کرلے میں اس کے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں ۔میں نے کہا‘میں قبول کرتا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگوں سے کسی چیز کو بھی سوال نہ کر‘ثوبان رضی اللہ عنہ کی حالت یہ تھی کہ وہ سوار ہوتے اور ان کوکوڑا گرجاتا تو وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ میرا کوڑا مجھے پکڑ ا دو بلکہ خود اتر کر اٹھاتے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس اتنا مال ہو جواسے کفایت کرتا ہے تو قیامت کے دن وہ سوال اس کے چہرے پر چھلا ہوانشان بن کر آئے گا۔سوال کیا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آدمی کوکتنا مال کفایت کرتا ہے ؟
”اور جو بھی تم بھلی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اس کافائدہ خود پا ؤ گے۔تمہیں صرف اللہ کی رضا مندی طلب کرنے کے لیے خیرات کرنی چاہئے اور جوبھی تم بھلی چیز خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا
مُبشّر احمد رَبّاَنی
اللہ وحدہ لاشرک لہ نے صدقات وخیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاہے:
”اور جو بھی تم بھلی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اس کافائدہ خود پا ؤ گے۔تمہیں صرف اللہ کی رضا مندی طلب کرنے کے لیے خیرات کرنی چاہئے اور جوبھی تم بھلی چیز خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔صدقات کے مستحق صرف وہ فقراء ہیں جو اللہ کی راہ (جہاد )میں روک دیے گئے۔
جو زمین میں(کاروبار وغیرہ)کے لیے چل پھر نہیں سکتے‘نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مال دار خیال کرتے ہیں ‘آپ ان کی علامت سے انہیں پہچان لیں گے ۔وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو کچھ مال خرچ کروگے بے شک اللہ تعالیٰ اسے جاننے والا ہے ۔“
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہمارے صدقات وخیرات اور اموال کے مستحق وہ لوگ ہیں جو جہاد فی سبیل اللہ میں روکے گئے ہیں اور اتنے فقراء ومحتاج ہیں کہ ضرورت کے ہوتے ہوئے بھی لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر دست سوال دراز نہیں کرتے کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا نا ان کی خودداری اور عزت نفس کے خلاف ہے اس آیت کریمہ میں فقیر وغریب کے وصف جو ذکر کیے گئے ہیں وہ انتہائی قابل توجہ ہیں ۔
(ا)التعفف(۲)الحاف
تعفف کا مطلب سوال سے بچنا یعنی فقروغربت کے باوجود لوگوں سے سوال کرنے سے گریز کریں گے ۔کیونکہ شریعت اسلامیہ میں بھیک مانگنے کو پسند نہیں کیا گیا۔زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
”تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی پکڑ کر پہاڑ پر جائے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا لاد کر لائے اور اسے فروخت کرکے اس کی قیمت پر قناعت کرے تو اس کے حق میں لوگوں سے سوال کرنے سے بہتر ہے لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔
یہی حدیث ابوھریرة رضی اللہ عنہ سے:
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص میری ایک بات قبول کرلے میں اس کے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں ۔میں نے کہا‘میں قبول کرتا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگوں سے کسی چیز کو بھی سوال نہ کر‘ثوبان رضی اللہ عنہ کی حالت یہ تھی کہ وہ سوار ہوتے اور ان کوکوڑا گرجاتا تو وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ میرا کوڑا مجھے پکڑ ا دو بلکہ خود اتر کر اٹھاتے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس اتنا مال ہو جواسے کفایت کرتا ہے تو قیامت کے دن وہ سوال اس کے چہرے پر چھلا ہوانشان بن کر آئے گا۔سوال کیا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آدمی کوکتنا مال کفایت کرتا ہے ؟
Previous thread
Next thread