- Joined
- Apr 25, 2018
- Local time
- 1:23 AM
- Threads
- 208
- Messages
- 595
- Reaction score
- 974
- Points
- 460
- Gold Coins
- 428.14

انسانی دماغ جس کے تقریبا سو ارب خلیات ہیں جو کہ پورے جسم میں پھیلے ہوئے ہیں ہر خلیے میں دو اہم چیزیں ہوتی ہیں جنکا کام جسم کے ساتھ ہونی والی ہر قسم کی چھیڑ چھاڑ کو نوٹ کرکے دماغ کی مین میو ری کو بھیجنا ہوتا ہے آسان لفظوں میں اس کی وضاحت یوں کی جائے گی کہ جسم کے تمام اعضا کے ساتھ چھوٹی چھوٹی میموری منسلک ہوتی ہے جو دماغ کی مین میموری سے جڑی ہوتی ہے یا ہر ہر عضو کا اپنا ایک چھوٹا سا دماغ ہوتا ہے جس میں اس عضو کا سارا ڈیٹا محفوظ ہوتا ہے
ان خلیاتی میموری اور دماغ کی مین میموری میں فرق یہ ہوتا ہے کہ مین میموری میں آپ کی پوری زندگی اور آپ کے پورے جسم کی معلومات محفوظ ہوتی ہے جب کہ خلیاتی میموری متعلقہ اعضا کے ساتھ خاص ہوتی ہے یعنی وہ میموری جس عضو کے ساتھ منسلک ہے اس میں اس عضو کی تمام معلومات محفوظ ہیں
مثلا کچھ عرصہ پہلے کسی کو جسم کے کسی حصے پر چوٹ لگی تھی تو جب بھی اسے وہ حادثہ یاد آئے گا اسے چوٹ کا احساس اسی جگہ ہوگا جہاں چوٹ لگی تھی نہ کہ جسم کے دیگر حصوں میں یہ ہے خلیاتی میموری
نیز اس خلیاتی میموری کی چوٹ کی تصدیق کی وجہ سے انسانی دماغ کی مین میموری کو جسم کے اس عضو پر چوٹ کا لگنا یقینی نظر آتا ہے اگر کسی طریقے سے یہ خلیاتی میموری ختم ہوجائے اور وہ عضو اس چوٹ کی تصدیق نہ کریں یعنی خلیاتی میموری میں اس چوٹ کا ریکارڈ نہ ہو تو پھر مین میوری کو بھی چوٹ کا لگنا ایک نظری دھوکا لگے گا
مزید یہ کہ ان اعضاء سے ایک انسان نے جس جس طرح سے کام لیا ہے وہ تمام کام ان اعضاء کی خلیاتی میموری میں محفوظ ہوتے ہیں اگر کسی طریقے سے یہ خلیاتی میموری ریکور ہوجائے تو کسی بھی شخص کے جسم کا سارا ریکارڈ سامنے آسکتا ہے یہاں پر ضمن میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کروں گا
کہ قربان جاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنھوں نے چودہ سو سال پہلے( کہ جب ان خلیاتی میموری کی بابت کسی کو شد بد بھی نہیں تھی ) ایک ایسی کتاب انسانوں کو دی جس میں بات درج تھی وہ یہ کہ قیامت کے دن انسان کے اعضاء انسان کے خلاف گواہی دینگے اس حوالے سے اگر ان خلیاتی میموری کی حقیقت پر غور کیا جائے تو اس بات کو سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی
چنانچہ قرآن پاک کے سورۃ نور اور سورۃ یسین میں ارشاد باری تعالی ہے اس دن ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتُوتوں کی گواہی دیں گے آج ہم اِن کے منہ بند کیے دیتے ہیں،اِن کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گےکہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں۔
آخری بات وہ یہ کہ میں دین اورسائنس میں مطابقت کے تکلف کا قائل نہیں ہوں لیکن جو سائنسی جزئیات دین کے مطابق ہیں تو ان کی طرف اشارہ کرنا اچھا سمجھتا ہوں ۔اور اگر کل کو سائنس کا یہ نظریہ بدل بھی جائے تو بھی میرے لیے اچنبھے کی کوئی بات نہیں کیوں کہ میں اس قرآنی بیان کا سائنسی نظریے کے بغیرہی قائل ہوں
جاری ہے۔۔۔۔۔
ان خلیاتی میموری اور دماغ کی مین میموری میں فرق یہ ہوتا ہے کہ مین میموری میں آپ کی پوری زندگی اور آپ کے پورے جسم کی معلومات محفوظ ہوتی ہے جب کہ خلیاتی میموری متعلقہ اعضا کے ساتھ خاص ہوتی ہے یعنی وہ میموری جس عضو کے ساتھ منسلک ہے اس میں اس عضو کی تمام معلومات محفوظ ہیں
مثلا کچھ عرصہ پہلے کسی کو جسم کے کسی حصے پر چوٹ لگی تھی تو جب بھی اسے وہ حادثہ یاد آئے گا اسے چوٹ کا احساس اسی جگہ ہوگا جہاں چوٹ لگی تھی نہ کہ جسم کے دیگر حصوں میں یہ ہے خلیاتی میموری
نیز اس خلیاتی میموری کی چوٹ کی تصدیق کی وجہ سے انسانی دماغ کی مین میموری کو جسم کے اس عضو پر چوٹ کا لگنا یقینی نظر آتا ہے اگر کسی طریقے سے یہ خلیاتی میموری ختم ہوجائے اور وہ عضو اس چوٹ کی تصدیق نہ کریں یعنی خلیاتی میموری میں اس چوٹ کا ریکارڈ نہ ہو تو پھر مین میوری کو بھی چوٹ کا لگنا ایک نظری دھوکا لگے گا
مزید یہ کہ ان اعضاء سے ایک انسان نے جس جس طرح سے کام لیا ہے وہ تمام کام ان اعضاء کی خلیاتی میموری میں محفوظ ہوتے ہیں اگر کسی طریقے سے یہ خلیاتی میموری ریکور ہوجائے تو کسی بھی شخص کے جسم کا سارا ریکارڈ سامنے آسکتا ہے یہاں پر ضمن میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کروں گا
کہ قربان جاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنھوں نے چودہ سو سال پہلے( کہ جب ان خلیاتی میموری کی بابت کسی کو شد بد بھی نہیں تھی ) ایک ایسی کتاب انسانوں کو دی جس میں بات درج تھی وہ یہ کہ قیامت کے دن انسان کے اعضاء انسان کے خلاف گواہی دینگے اس حوالے سے اگر ان خلیاتی میموری کی حقیقت پر غور کیا جائے تو اس بات کو سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی
چنانچہ قرآن پاک کے سورۃ نور اور سورۃ یسین میں ارشاد باری تعالی ہے اس دن ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتُوتوں کی گواہی دیں گے آج ہم اِن کے منہ بند کیے دیتے ہیں،اِن کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گےکہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں۔
آخری بات وہ یہ کہ میں دین اورسائنس میں مطابقت کے تکلف کا قائل نہیں ہوں لیکن جو سائنسی جزئیات دین کے مطابق ہیں تو ان کی طرف اشارہ کرنا اچھا سمجھتا ہوں ۔اور اگر کل کو سائنس کا یہ نظریہ بدل بھی جائے تو بھی میرے لیے اچنبھے کی کوئی بات نہیں کیوں کہ میں اس قرآنی بیان کا سائنسی نظریے کے بغیرہی قائل ہوں
جاری ہے۔۔۔۔۔
Previous thread
Next thread