- Joined
- May 5, 2018
- Local time
- 3:14 PM
- Threads
- 197
- Messages
- 5,224
- Reaction score
- 6,765
- Points
- 1,235
- Location
- آئی ٹی درسگاہ
- Gold Coins
- 1,431.96

۔۔۔ الکمونیا میں ائیر پورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت ڈاکٹر بھائی ہوائی جہاز سے پیراشوٹ کے ذریعے سے فضا سے الکمونیا میں باحفاظت اتر کر پیرا شوٹ لپیٹ رہے تھے۔
۔۔۔ تیز ہوا کے باعث ہزارو ں فٹ بلندی سے ہی انہوں نے گلائیڈنگ شروع کردی اور کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے اور پھر پیرا شوٹ کا بٹن دبانے کا خیال انہیں تب آیا جب وہ اپنی دانست میں الکمونیا کے کیپٹل ہاؤس کے آس پاس ہی تھے۔۔تیز ہوا کے باعث پیراٹ شوٹ گلائیڈ کرتا ہواایسی جگہ تک پہنچ آیا تھا جہاں اس سے قبل انہوں نے کبھی اینٹری نہیں کی تھی۔۔۔
انکل زاہد حسین کے بے حد اصرار پر ڈاکٹر بھائی نے خود ہی سفر کرتے ہوئے ہاتھی دانت سے بنی ایک خوبصورت لاٹھی انہیں دے کر واپس اپنی سلطنتِ الکمونیا میں بھٹک کر ویران اور اجنبی زمین پرلینڈ کرچکےتھے ۔۔انہوں نے زمین پر باحفاظت لینڈگ کر لی تو اِدھر اُدھر ایسے دیکھا جیسا کہ پوری الکمونیا ان کے استقبال کے لیے کھڑی ہوگی ،لیکن وہاں تو سوائے درختوں ، جھاڑیوں اور تاحد نگاہ وسیع جنگلات کےکچھ بھی نہ تھا، ۔
ڈاکٹر بھائی کے چہرے پر حیرت کے تاثرات ابھر آئے ،انہوں نے جھک کر زمین کی مٹی کرید کر ہاتھ میں لی اورمسل کر سونگھا ۔۔۔،۔اور پھر ایک طرف چلنا شروع کردیا۔۔۔۔۔آدھا گھنٹہ چلنے کے بعد انہوں نے ایک ریچھ کو دیکھا جو ڈاکٹر بھائی کی آمد سے باخبر اپنی دونوں ٹانگیں اٹھائے جیسے ان کے استقبال ہی کا منظر تھا۔۔۔جب دونوں کی نظریں آپس میں ملیں تو ریچھ نے اگلی ٹانگیں اٹھا ئیں اور پھر ڈاکٹر بھائی کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔لاشعوری طور پر ڈاکٹر بھائی توفضاؤں میں ہی اس کے لیےپیشگی تیار تھے کہ الکمونیا کا پتہ پتہ بھی ہل جل کران کا استقبال کرے گا ،چنانچہ اچانک جب انہیں ایک جاندار اس ویران جگہ میں نظر آیاتو وہ بے اختیار آگے بڑھ کر ریچھ کے گلے جاملے لیکن اگلے ہی لمحے ڈاکٹر بھائی کو احساس ہوا کہ یہ ریچھ استقبال سے ہٹ کران کے جسم کو ہوائی جہاز سمجھ کر اعضا کو الگ الگ کرکے شاید اسمگل کرنے کا پروگرام بنائے ہوئےہے۔۔۔
چنانچہ انہوں نے اپنے اس خیال پریقین کامل پایا تواچھل کر ایک طرف ہوئے اور پھرتی سے خنجر نکال کر ریچھ کے سامنے کردیا۔۔۔۔ سیاہ رنگ کا بڑا قد آور ریچھ خنجر اور ڈاکٹر بھائی کا بروسلی اسٹائل دیکھ کر ٹھٹک کر رک گیا۔
ریچھ الٹے قدموں ہٹتا ہوا وہاں سے بھاگ گیاتو ڈاکٹر بھائی نے بھی اطمینان کا سانس لیا،ورنہ ریچھ کے چیلنج قبول کرنے پریہ مقابلہ سخت بھی ثابت ہوسکتا تھا،۔۔۔
اچانک ڈاکٹر بھائی کو اپنی گھڑی کا خیال آیاتو وہ زمین پر ادھر ادھر نظریں دوڑا کر سوچنے لگے جو ریچھ سے مڈبھیڑ سے کہیں گر کر گھاس یا جھاڑیوں کے نیچے جا پڑی تھی، اس گھڑی کے اندر جی پی ایس کے علاوہ دیگر کارآمد فنکشنز تھے۔۔۔ تاہم گھڑی نہ ملی تو انہوں نے سوچا کہ اب واپس اس قیمتی شے کے بغیر ہی اڑنا پڑے گا۔۔۔پھر بغیر کوئی وقت ضائع کیے انہوں نے اپنے بیگ سے ایک چپٹی مستطیل سی پلیٹ نکالی اور پھر اسے کھول کر لمبا کردیا جو دومیٹر تک لمبی ہوگئی اس کے اوپر لگے سٹیل کے رنگوں کے اندرڈاکٹر بھائی نے چھوٹے سائز کے چار جیٹ انجن شکل کے پنکھے نکال کر لگائے جو بیٹریوں پر چلتے تھے اور وہ پوری طرح رنگوں کے اندر فٹ آگئے تھے جبکہ ان کے ساتھ لگی ننھے سی پلگ پلیٹ پر لگے پینل بورڈ کے اندر منسلک کرکے ان کا کنکشن بھی ایک کردیا تھا، پھر بیگ کے اندر سے چھوٹے سائز کی سلینڈر نما چیز نکالی جو کہ جیٹ انجن تھا۔
پنکھوں والی پلیٹ کے ساتھ طنابیں بھی لگی ہوئی تھیں جن کے ساتھ بکلزتھے ان کے زریعے سےپلیٹ پیٹھ پیچھے آگے کی جانب کندھوں کے قریب سیٹ کرکے طنابوں کو بازوؤں کے ساتھ باآسانی کلپ کردیا۔جبکہ جیٹ انجن کو انہوں نےکمر پررکھا اور ناف کے اوپر کلپ کیا اور دو طنابوں کو ٹانگوں کے ساتھ لپیٹ کر بکل کے اندر پٹے ڈال کر باندھ دئیے۔
جبکہ سفر بیگ کو پیٹھ کے بجائے سامنے سے لادھ لیا۔
یہ سارا نتظام کرکے انہوں نے جنگل سے ہٹ کر ایک صاف میدان تلاش کیا جو رن وے کا کام دے سکتا تھا۔۔۔
چار عدد طاقت ور پنکھے جو ہوا کو سامنے سے کھینچتے اور پیچھے کی طرف دھکیلتے اور چھوٹے سائز کا جیٹ انجن اتنی طاقت رکھتا تھا کہ وہ ڈاکٹر بھائی کو اڑا کر کہیں بھی لیجائے،اس کے اندر ہی فیول کا ٹینک بھی فل تھا۔
یہ ساری پلاننگ ان کے بیک اپ پلان کا حصہ تھا جو اس وقت گھر سےجو رخت سفر کرکےنکلے تھے کام دے رہا تھا۔۔۔اچھی طرح مطمئن ہونے کے بعد انہوں نے سینے سے لگے سفری بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر پانی پیا ،اور آنکھوں کی حفاظت کے لیے الاسٹک لگی گاگل نکال کر پہن لی۔
اب ڈاکٹر بھائی نے تمام بٹن دبانے سے پہلے دعا مانگی اور پھر سب سے پہلے چاروں پنکھوں کا سوئچ پلیٹ پر لگے بٹن سے دبا کر آن کیا تو پنکھے چل پڑے۔
اُدھر سے وہی ریچھ نمودار ہوا اور ڈاکٹر بھائی کو شکار ہاتھ سے نکلنے کے مصداق دوڑتے ہوئے ان کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔ڈاکٹر بھائی نے بھی دیکھ لیا کہ ریچھ ایک مرتبہ پھر سے الوادعی تڑپ لیے ان سے ملنے آرہاہے ،انہوں نے سوچا کہ شاید یہ معافی بھی مانگے گا لہذا مسکرا کر ہاتھ ہلایا لیکن پھر انہوں نے اپنی پہلی غلطی کو دورانے کے بجائے وہاں سے نکلنا بہتر سمجھا لیکن اس وقت تک ریچھ بہت قریب آچکا تھا۔۔۔۔ڈاکٹر بھائی کا ذہن ماؤف سا ہوگیا کہ اس حالت میں اپنا بچاؤ تو دور پاؤں پر کھڑا رہنے کی بھی حالت میں نہ تھا اگر پیٹھ کے بل گر جاتا تو پنکھے بھی ٹوٹ سکتے تھے اور جیٹ انجن کی وجہ سے اٹھنے میں بھی دشواری ہوتی ،یہ سارے خیالات ایک پل میں ذہن سے گزرگئے۔۔۔۔ریچھ بہت ہی قریب آچکا تھا،اورپھر اس نے دور سے ہی ہائی جمپ لے کرچھلانگ لگائی۔۔۔۔
ڈاکٹر بھائی نے دیکھا کہ ریچھ ایسے ہوا میں اچھلا جیسا کہ گول کیپر نے فٹ بال کو زور دار کیک ماری ہو،اس کے پیشتر کہ وہ ان پر حملہ کردیتا ،سکینڈ کے ہزارویں حصے میں ڈاکٹر بھائی کی انگلی نے جیٹ انجن کا بٹن دبا دیا،۔۔۔۔۔ایک زور دار دھماکہ ہوا اور جیسے ناسا کےخلائی اسٹیشن سے راکٹ دھواں اڑاتا ہوا بلند ہوتا ہے اسی طرح ڈاکٹر بھائی فضامیں بلند ہوئے اور لمحوں میں کئی فٹ اوپر اٹھتے ہوئے فضا میں بلندی کی جانب بڑھتے چلے گئے۔۔۔
ان کی دانست میں جو گھڑی جھاڑیوں میں گر چکی تھی وہ ریچھ کے ساتھ پنجہ آزمائی میں اس کے پاس جا چکی تھی اور اسی گھڑی کے اندر سیٹلائٹ کے اندر سگنلز کے زریعے سے جیٹ کو کنٹرول کرنے کا نظام بھی تھا،ریچھ نے ایک بٹن دبایا تو ڈاکٹر بھائی جو کئی سو فٹ بلند ہوکر بڑے مطمئن انداز سے ریچھ کا منہ چڑ چڑانے کیساتھ مناظر سے بھی لطف اندوز ہورہے تھے ایک جھٹکے سے نیچے کی جانب آنے لگے ۔۔۔ڈاکٹر بھائی جب کئی سو فٹ سے یک دم نیچے آئے تو ان کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
انہیں نے دیکھا کہ وہی گھڑی ریچھ کے ہاتھ میں پکڑی ہے اور ریچھ بھی سمجھ چکا تھا کہ یہ گھڑی نہیں بلکہ طوطا ہے جس کے اندر اڑنے والے کی جان ہے۔
ریچھ نے ڈاکٹر بھائی کو ہواؤں میں اچھال اچھال کر بے ہوشی کے قریب کردیا،اور رگڑے پر رگڑے دے کر ایسے چکر دئیے کہ انہیں سورج زمین پر نظر آنے لگا۔۔۔بڑی ہی مشکلوں سے ڈاکٹربھا ئی نے جیٹ انجن پر لگے ایک بٹن کو دباکر گھڑی کے کنٹرول سے جیٹ کو آزاد کیا ۔
اب ریچھ جو چاہے کرتا جیٹ کا کنٹرول گھڑی سے ختم ہوچکا تھا۔۔۔ڈاکٹر بھائی نے اطمینان کا سانس لیا تو وہ پانی ناک کے راستے باہر نکل آیا جو انہوں نے پی کر تمام بٹن دبائے تھے۔۔۔
ڈاکٹر بھائی خو کو سنبھلے سنبھالتے ہوئے ہزاروں فٹ بلندی تک پہنچ چکے تھےاور ان کو پوری الکمونیا ایک پلیٹ کی طرح دھندلی دھندلی دیکھائی دینے لگی۔۔۔ خود پر قابو پا کر انہوں نے آہستہ آہستہ جیٹ انجن کا لینڈنگ بٹن دبا کر نیچے کی جانب سفر شروع کیا۔۔۔سو فٹ تک زمین کے قریب آکر انہوں نے سفری بیگ سے ایک ٹیبل ٹینس کے دو ریکٹ نکال کر ہاتھوں میں پکڑ کر پروں کی طرح ہاتھوں کو پھیلایا اور ریکٹ کی مدد سے ہواسے اپنی جسمانی پوزیشن کا رخ اس طرف کرنا شروع کردیا جسطرح انہیں گمان تھا کہ وہی ان کی الکمونیا ہے۔
کافی آگے تک گئے تو زمین مانوس مانوس سی نظر آئی اور انہوں نے منہ سے نعرہ مار کر الکمونیا میں پہنچ آنے کا خود ساختہ اعلان کرتے ہوئے کہا"اس وقت میں الکمونیا میں داخل ہوچکا ہوں اور تھوڑی دیر تک باحفاظت لینڈ کرجاؤں گا بٹن دباکے"۔۔۔۔
تمام جانوروں نے انہیں پہچان کر اس قدر شور برپا کیا کہ محاورتاً الکمونیا کو سر پر اٹھا لیا اور پرندوں نے ڈاکٹر بھائی کو اپنےحصار میں لے لیا۔۔۔ڈاکٹر بھائی نے بھی خوشی سے ان کی طرف ہاتھ ہلائے اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ اپنے گھر کے قریب باغ میں باحفاظت اتر کر خود کو جیٹ اور پنکھوں سے آزاد کرنے لگے۔۔۔۔وہ الکمونیا میں پہنچ جانے کی خوشی میں وہیں گھاس پر بے سدھ ہوکر لیٹ گئے۔۔۔۔ریچھ نے ڈاکٹر بھائی کا کباڑا کرکے رکھ دیا تھا لیکن انہوں نے اپنی "میں نہ مانوں"والے اصول پر عمل کرکے آج ایک عظیم فتح پاکر فاتح اعظم کی حیثیت سے الکمونیا کی زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔۔۔

۔۔۔ تیز ہوا کے باعث ہزارو ں فٹ بلندی سے ہی انہوں نے گلائیڈنگ شروع کردی اور کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے اور پھر پیرا شوٹ کا بٹن دبانے کا خیال انہیں تب آیا جب وہ اپنی دانست میں الکمونیا کے کیپٹل ہاؤس کے آس پاس ہی تھے۔۔تیز ہوا کے باعث پیراٹ شوٹ گلائیڈ کرتا ہواایسی جگہ تک پہنچ آیا تھا جہاں اس سے قبل انہوں نے کبھی اینٹری نہیں کی تھی۔۔۔
انکل زاہد حسین کے بے حد اصرار پر ڈاکٹر بھائی نے خود ہی سفر کرتے ہوئے ہاتھی دانت سے بنی ایک خوبصورت لاٹھی انہیں دے کر واپس اپنی سلطنتِ الکمونیا میں بھٹک کر ویران اور اجنبی زمین پرلینڈ کرچکےتھے ۔۔انہوں نے زمین پر باحفاظت لینڈگ کر لی تو اِدھر اُدھر ایسے دیکھا جیسا کہ پوری الکمونیا ان کے استقبال کے لیے کھڑی ہوگی ،لیکن وہاں تو سوائے درختوں ، جھاڑیوں اور تاحد نگاہ وسیع جنگلات کےکچھ بھی نہ تھا، ۔
ڈاکٹر بھائی کے چہرے پر حیرت کے تاثرات ابھر آئے ،انہوں نے جھک کر زمین کی مٹی کرید کر ہاتھ میں لی اورمسل کر سونگھا ۔۔۔،۔اور پھر ایک طرف چلنا شروع کردیا۔۔۔۔۔آدھا گھنٹہ چلنے کے بعد انہوں نے ایک ریچھ کو دیکھا جو ڈاکٹر بھائی کی آمد سے باخبر اپنی دونوں ٹانگیں اٹھائے جیسے ان کے استقبال ہی کا منظر تھا۔۔۔جب دونوں کی نظریں آپس میں ملیں تو ریچھ نے اگلی ٹانگیں اٹھا ئیں اور پھر ڈاکٹر بھائی کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔لاشعوری طور پر ڈاکٹر بھائی توفضاؤں میں ہی اس کے لیےپیشگی تیار تھے کہ الکمونیا کا پتہ پتہ بھی ہل جل کران کا استقبال کرے گا ،چنانچہ اچانک جب انہیں ایک جاندار اس ویران جگہ میں نظر آیاتو وہ بے اختیار آگے بڑھ کر ریچھ کے گلے جاملے لیکن اگلے ہی لمحے ڈاکٹر بھائی کو احساس ہوا کہ یہ ریچھ استقبال سے ہٹ کران کے جسم کو ہوائی جہاز سمجھ کر اعضا کو الگ الگ کرکے شاید اسمگل کرنے کا پروگرام بنائے ہوئےہے۔۔۔
چنانچہ انہوں نے اپنے اس خیال پریقین کامل پایا تواچھل کر ایک طرف ہوئے اور پھرتی سے خنجر نکال کر ریچھ کے سامنے کردیا۔۔۔۔ سیاہ رنگ کا بڑا قد آور ریچھ خنجر اور ڈاکٹر بھائی کا بروسلی اسٹائل دیکھ کر ٹھٹک کر رک گیا۔

ریچھ الٹے قدموں ہٹتا ہوا وہاں سے بھاگ گیاتو ڈاکٹر بھائی نے بھی اطمینان کا سانس لیا،ورنہ ریچھ کے چیلنج قبول کرنے پریہ مقابلہ سخت بھی ثابت ہوسکتا تھا،۔۔۔
اچانک ڈاکٹر بھائی کو اپنی گھڑی کا خیال آیاتو وہ زمین پر ادھر ادھر نظریں دوڑا کر سوچنے لگے جو ریچھ سے مڈبھیڑ سے کہیں گر کر گھاس یا جھاڑیوں کے نیچے جا پڑی تھی، اس گھڑی کے اندر جی پی ایس کے علاوہ دیگر کارآمد فنکشنز تھے۔۔۔ تاہم گھڑی نہ ملی تو انہوں نے سوچا کہ اب واپس اس قیمتی شے کے بغیر ہی اڑنا پڑے گا۔۔۔پھر بغیر کوئی وقت ضائع کیے انہوں نے اپنے بیگ سے ایک چپٹی مستطیل سی پلیٹ نکالی اور پھر اسے کھول کر لمبا کردیا جو دومیٹر تک لمبی ہوگئی اس کے اوپر لگے سٹیل کے رنگوں کے اندرڈاکٹر بھائی نے چھوٹے سائز کے چار جیٹ انجن شکل کے پنکھے نکال کر لگائے جو بیٹریوں پر چلتے تھے اور وہ پوری طرح رنگوں کے اندر فٹ آگئے تھے جبکہ ان کے ساتھ لگی ننھے سی پلگ پلیٹ پر لگے پینل بورڈ کے اندر منسلک کرکے ان کا کنکشن بھی ایک کردیا تھا، پھر بیگ کے اندر سے چھوٹے سائز کی سلینڈر نما چیز نکالی جو کہ جیٹ انجن تھا۔
پنکھوں والی پلیٹ کے ساتھ طنابیں بھی لگی ہوئی تھیں جن کے ساتھ بکلزتھے ان کے زریعے سےپلیٹ پیٹھ پیچھے آگے کی جانب کندھوں کے قریب سیٹ کرکے طنابوں کو بازوؤں کے ساتھ باآسانی کلپ کردیا۔جبکہ جیٹ انجن کو انہوں نےکمر پررکھا اور ناف کے اوپر کلپ کیا اور دو طنابوں کو ٹانگوں کے ساتھ لپیٹ کر بکل کے اندر پٹے ڈال کر باندھ دئیے۔
جبکہ سفر بیگ کو پیٹھ کے بجائے سامنے سے لادھ لیا۔
یہ سارا نتظام کرکے انہوں نے جنگل سے ہٹ کر ایک صاف میدان تلاش کیا جو رن وے کا کام دے سکتا تھا۔۔۔
چار عدد طاقت ور پنکھے جو ہوا کو سامنے سے کھینچتے اور پیچھے کی طرف دھکیلتے اور چھوٹے سائز کا جیٹ انجن اتنی طاقت رکھتا تھا کہ وہ ڈاکٹر بھائی کو اڑا کر کہیں بھی لیجائے،اس کے اندر ہی فیول کا ٹینک بھی فل تھا۔
یہ ساری پلاننگ ان کے بیک اپ پلان کا حصہ تھا جو اس وقت گھر سےجو رخت سفر کرکےنکلے تھے کام دے رہا تھا۔۔۔اچھی طرح مطمئن ہونے کے بعد انہوں نے سینے سے لگے سفری بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر پانی پیا ،اور آنکھوں کی حفاظت کے لیے الاسٹک لگی گاگل نکال کر پہن لی۔
اب ڈاکٹر بھائی نے تمام بٹن دبانے سے پہلے دعا مانگی اور پھر سب سے پہلے چاروں پنکھوں کا سوئچ پلیٹ پر لگے بٹن سے دبا کر آن کیا تو پنکھے چل پڑے۔
اُدھر سے وہی ریچھ نمودار ہوا اور ڈاکٹر بھائی کو شکار ہاتھ سے نکلنے کے مصداق دوڑتے ہوئے ان کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔ڈاکٹر بھائی نے بھی دیکھ لیا کہ ریچھ ایک مرتبہ پھر سے الوادعی تڑپ لیے ان سے ملنے آرہاہے ،انہوں نے سوچا کہ شاید یہ معافی بھی مانگے گا لہذا مسکرا کر ہاتھ ہلایا لیکن پھر انہوں نے اپنی پہلی غلطی کو دورانے کے بجائے وہاں سے نکلنا بہتر سمجھا لیکن اس وقت تک ریچھ بہت قریب آچکا تھا۔۔۔۔ڈاکٹر بھائی کا ذہن ماؤف سا ہوگیا کہ اس حالت میں اپنا بچاؤ تو دور پاؤں پر کھڑا رہنے کی بھی حالت میں نہ تھا اگر پیٹھ کے بل گر جاتا تو پنکھے بھی ٹوٹ سکتے تھے اور جیٹ انجن کی وجہ سے اٹھنے میں بھی دشواری ہوتی ،یہ سارے خیالات ایک پل میں ذہن سے گزرگئے۔۔۔۔ریچھ بہت ہی قریب آچکا تھا،اورپھر اس نے دور سے ہی ہائی جمپ لے کرچھلانگ لگائی۔۔۔۔
ڈاکٹر بھائی نے دیکھا کہ ریچھ ایسے ہوا میں اچھلا جیسا کہ گول کیپر نے فٹ بال کو زور دار کیک ماری ہو،اس کے پیشتر کہ وہ ان پر حملہ کردیتا ،سکینڈ کے ہزارویں حصے میں ڈاکٹر بھائی کی انگلی نے جیٹ انجن کا بٹن دبا دیا،۔۔۔۔۔ایک زور دار دھماکہ ہوا اور جیسے ناسا کےخلائی اسٹیشن سے راکٹ دھواں اڑاتا ہوا بلند ہوتا ہے اسی طرح ڈاکٹر بھائی فضامیں بلند ہوئے اور لمحوں میں کئی فٹ اوپر اٹھتے ہوئے فضا میں بلندی کی جانب بڑھتے چلے گئے۔۔۔
ان کی دانست میں جو گھڑی جھاڑیوں میں گر چکی تھی وہ ریچھ کے ساتھ پنجہ آزمائی میں اس کے پاس جا چکی تھی اور اسی گھڑی کے اندر سیٹلائٹ کے اندر سگنلز کے زریعے سے جیٹ کو کنٹرول کرنے کا نظام بھی تھا،ریچھ نے ایک بٹن دبایا تو ڈاکٹر بھائی جو کئی سو فٹ بلند ہوکر بڑے مطمئن انداز سے ریچھ کا منہ چڑ چڑانے کیساتھ مناظر سے بھی لطف اندوز ہورہے تھے ایک جھٹکے سے نیچے کی جانب آنے لگے ۔۔۔ڈاکٹر بھائی جب کئی سو فٹ سے یک دم نیچے آئے تو ان کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
انہیں نے دیکھا کہ وہی گھڑی ریچھ کے ہاتھ میں پکڑی ہے اور ریچھ بھی سمجھ چکا تھا کہ یہ گھڑی نہیں بلکہ طوطا ہے جس کے اندر اڑنے والے کی جان ہے۔
ریچھ نے ڈاکٹر بھائی کو ہواؤں میں اچھال اچھال کر بے ہوشی کے قریب کردیا،اور رگڑے پر رگڑے دے کر ایسے چکر دئیے کہ انہیں سورج زمین پر نظر آنے لگا۔۔۔بڑی ہی مشکلوں سے ڈاکٹربھا ئی نے جیٹ انجن پر لگے ایک بٹن کو دباکر گھڑی کے کنٹرول سے جیٹ کو آزاد کیا ۔
اب ریچھ جو چاہے کرتا جیٹ کا کنٹرول گھڑی سے ختم ہوچکا تھا۔۔۔ڈاکٹر بھائی نے اطمینان کا سانس لیا تو وہ پانی ناک کے راستے باہر نکل آیا جو انہوں نے پی کر تمام بٹن دبائے تھے۔۔۔
ڈاکٹر بھائی خو کو سنبھلے سنبھالتے ہوئے ہزاروں فٹ بلندی تک پہنچ چکے تھےاور ان کو پوری الکمونیا ایک پلیٹ کی طرح دھندلی دھندلی دیکھائی دینے لگی۔۔۔ خود پر قابو پا کر انہوں نے آہستہ آہستہ جیٹ انجن کا لینڈنگ بٹن دبا کر نیچے کی جانب سفر شروع کیا۔۔۔سو فٹ تک زمین کے قریب آکر انہوں نے سفری بیگ سے ایک ٹیبل ٹینس کے دو ریکٹ نکال کر ہاتھوں میں پکڑ کر پروں کی طرح ہاتھوں کو پھیلایا اور ریکٹ کی مدد سے ہواسے اپنی جسمانی پوزیشن کا رخ اس طرف کرنا شروع کردیا جسطرح انہیں گمان تھا کہ وہی ان کی الکمونیا ہے۔
کافی آگے تک گئے تو زمین مانوس مانوس سی نظر آئی اور انہوں نے منہ سے نعرہ مار کر الکمونیا میں پہنچ آنے کا خود ساختہ اعلان کرتے ہوئے کہا"اس وقت میں الکمونیا میں داخل ہوچکا ہوں اور تھوڑی دیر تک باحفاظت لینڈ کرجاؤں گا بٹن دباکے"۔۔۔۔
تمام جانوروں نے انہیں پہچان کر اس قدر شور برپا کیا کہ محاورتاً الکمونیا کو سر پر اٹھا لیا اور پرندوں نے ڈاکٹر بھائی کو اپنےحصار میں لے لیا۔۔۔ڈاکٹر بھائی نے بھی خوشی سے ان کی طرف ہاتھ ہلائے اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ اپنے گھر کے قریب باغ میں باحفاظت اتر کر خود کو جیٹ اور پنکھوں سے آزاد کرنے لگے۔۔۔۔وہ الکمونیا میں پہنچ جانے کی خوشی میں وہیں گھاس پر بے سدھ ہوکر لیٹ گئے۔۔۔۔ریچھ نے ڈاکٹر بھائی کا کباڑا کرکے رکھ دیا تھا لیکن انہوں نے اپنی "میں نہ مانوں"والے اصول پر عمل کرکے آج ایک عظیم فتح پاکر فاتح اعظم کی حیثیت سے الکمونیا کی زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔۔۔

Previous thread
Next thread