PakArt UrduLover
Thread Starter

in memoriam 1961-2020، May his soul rest in peace


Charismatic
Designer
Expert
Writer
Popular
ITD Observer
ITD Solo Person
ITD Fan Fictionest
ITD Well Wishir
ITD Intrinsic Person
Persistent Person
ITD Supporter
Top Threads Starter
- Joined
- May 9, 2018
- Local time
- 7:22 PM
- Threads
- 1,354
- Messages
- 7,658
- Reaction score
- 6,966
- Points
- 1,508
- Location
- Manchester U.K
- Gold Coins
- 121.16

ادب میں چمچوں کی تقسیم اس طرح ہو سکتی ہے، ہم یہاں صرف دو قسموں کے چمچوں کا ذکر کریں گے۔ پہلی قسم وقتی ضرورت کے لیے کام کرتی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ وہ قسم ہے جو آئس کریم کے ساتھ ملتی ہے اور جسے آئس کریم کھانے کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔ اس قسم میں ’واہ‘… ’واہ وا‘… اور …’واہ وا واہ‘ اس کی ارتقائی منزلیں ہیں۔ یہ قسم زیادہ تر مشاعروں میں کام آتی ہے۔ یہ چمچے یہ دیکھے بغیر کہ شاعر کا تو سن خیال کس بلندی پر پرواز کر رہا ہے اور کر بھی رہا ہے یا کھونٹے سے بندھا صرف دولتیاں جھاڑ رہا ہے۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے رہتے ہیں۔ شاعر مشاعرہ پڑھنے سے پہلے یقین کر لیتا ہے کہ وہ موجود ہیں اور وہ موجود ہوتے ہیں۔ دوسری قسم ان چمچوں کی ہے جو ڈش کے ساتھ دستر خوان تک آتے ہیں۔ ان کی بھی قسمیں ہیں۔ میٹریل کے لحاظ سے بھی یہ کئی طرح کے ہو سکتے ہیں، پلاسٹک کے، بھرت کے، ایلومینیم کے، لوہے کے، پیتل کے اور سٹین لیس سٹیل کے۔ کبھی چاندی کے بھی ہوتے تھے لیکن اب وہ صرف گھٹی دینے کے کام آتے ہیں۔ کسی ادیب یا شاعر کے ہاں شہرت کی دیگ چڑھتی ہے تو چمچوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہاں غلط فہمی کا ازالہ کر دینا ضروری ہے کہ ہم ادیبوں اور شاعروں کے پرستان اور فینز کی بات نہیں کر رہے، خالص چمچوں کی بات کر رہے ہیں جو اپنی زنگ آلود ذہنیتوں سمیت شاعروں، ادیبوں کو گھیرے رکھتی ہیںا ور آکاس بیل کی طرح ان سے چمٹے رہتے ہیں اور جس طرح بڑے بڑے بادشاہ اور حکمران خوشامد کے میٹھے زہر سے ہلاک ہوتے رہتے تھے۔ اسی طرح یہ لوگ ادیب کو ادیب اعظم اور شاعر کو شاعر اعظم کہہ کر ان کا عاداعظم نکال لیتے ہیں اور بے چارہ شاعر یا ادیب بہت جلد بھول جاتا ہے کہ وہ وارڈ کمیٹی یا زیادہ سے زیادہ یونین کونسل کے علاقے کا عظیم ترین شاعر ہے یا براعظم کا۔ ادب میں مبالغہ کو ویسے بھی بڑی اہمیت حاصل ہے اور مبالغہ کو حسن مبالغہ کہا جاتا ہے (خدا کا شکر ہے کہ غلو اور اغراق کو حسن غلو اور حسن اغراق نہیں کہا جاتا) اُردو فارسی شاعری میں اس کی مثالیں ہر جگہ بکھری پڑی ہیں۔ نئے ادب میں بھی اسے بڑا بلند مقام حاصل ہے۔ آپ جس قدر مبالغہ آمیز، غیر فطری اور چونکا دینے والی بات کہیں گے اتنا ہی ادب میں نیا پن ہو گا اور اگر آپ بالکل بے تکی ہانکیں، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، جیسے ملیریا بخار میں آدمی ہذیان بکتا ہے۔ جیسے مرگی کے دورے سے پہلے مریض محسوس کرتا ہے یا جیسے لوگ عام طور پر نہیں سوچتے تو آپ جدید ادب تخلیق کر سکیں گے۔ وہ الگ بات ہے کہ خود آپ کی سمجھ میں بھی نہ آئے کہ آپ کی اس بے ربط تحریر کا مطلب کیا ہے؟ نئے پن اور جدیدیت کے تجربات کے لیے بہت ضروری ہے کہ کچھ مطلب نکالنے زندہ باد کہنے اور نعرے لگانے والوں کا تعاون حاصل ہو ایسے کام کے آدمیوں کو آپ جو چاہے نام دیں۔ ادبی محفلوں میں اور خاص کر تنقیدی اجلاس ہو تو شاعر اور ادیب ان کے بغیر نہیں آتے۔ راقم الحروف کو چند برس پہلے ایک ادبی انجمن کی ہفتہ وار کارروائی لکھنے کا موقع ملا۔ شروع شروع میں یہ کام بڑا مشکل اور محنت طلب معلوم ہوا اور شارٹ ہینڈ سے ناواقفیت بڑی کھلتی تھی۔ مگر چند ہی ہفتوں بعد ساری مشکلات آسان ہوتی نظر آئیں اور پتہ چل گیا کہ کون چمچہ ہ اور کون صاحب چمچہ… نیز کون کس کو مکھن لگاتا ہے ۔ چمچوں نے پیٹنٹ قسم کے جملے اور پیراگراف رٹ رکھے تھے۔ ہر تحریر کے متعلق وہی جملے اور باتیں دہرائی جاتی تھیں۔ ٭…٭…٭
Previous thread
Next thread