- Joined
- May 8, 2018
- Local time
- 9:30 PM
- Threads
- 111
- Messages
- 3,277
- Reaction score
- 4,751
- Points
- 943
- Location
- The City of Containers
- Gold Coins
- 878.59

ہانگ کانگ میں تقریبا صبح طلوع ہو چکی تھی ، آج صبیح بھائی تہجد سے بھی پہلے ہی اٹھ گئے تھے ، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ساری رات وہ سوئے ہی نہیں تھے تو زیادہ مناسب ہوگا، آج کا دن ان کے لیئے بہت اہم تھا، کچھ خوشی اور گھبراہٹ کے ملے جلے سے تاثرات تھے ، آج نہ جانے کتنے سالوں کے بعد صبیح بھائی نے صابن سے منہ دھویا تھا اور اپنا سب سے قیمتی سوٹ ، جو وہ پچھے پندرہ سالوں میں صرف تین بار استعمال کر چکے تھے ، نکال کر پہنا اور پرفیوم سے نہا کر ، ناشتے کی ٹیبل پر پہنچ گئے اور ناشتے کا انتظار کرنے لگے، مگر جب پانچ دس منٹ گزر گئے اور گھر میں خاموشی محسوس ہوئی تو صبیح بھائی کو کچھ تشویش ہوئی ، گھڑی پر نظر پڑی تو ابھی صرف ساڑھے پانچ بجے تھے۔۔۔دھت تیرے کی

صبیح بھائی اپنی تیاریوں میں اتنا مگن تھے کہ انہیں وقت دیکھنے کا خیال ہی نہ رہا، وہ وقت جو وہ سوتے ہوئے گزارتے تھے اور ناشتہ کی میز پر تقریبا اونگھتے ہوئے پہنچتے تھے وہ بھی بیگم کے بیلن کے خوف سے، آج سارا کا سارا ان کی تیاریوں میں گزر گیا کہ انہیں اور کسی چیز کا دھیان ہی نہ رہا، خیر اب اتنی ہمت تو نہ تھی کہ بیگم کو ناشتہ بنانے کا کہتے، خود ہی کچن کا رخ کیا ، جیسے تیسے چائے بنائی ، جو دیکھنےمیں چائے ہرگز نہ لگتی تھی اور ٹر ے میں چائے اور بسکٹ سجا کر ایسے اکڑتے ہوئے ٹیبل تک آئے جیسے آج کوئی میدان فتح کر لیا ہو

چائے کا پہلا سپ ہی ناقابل برداشت تھا ، چھ بج چکے تھے اور اب اتنا وقت نہ تھا کہ دوبارہ سے چائے بنانے کا رسک لیا جاتا، اسلیئے چائے کی بجائے دودھ بسکٹ پہ گزارہ کیا اورایک نوٹ کچن کاؤنٹر پہ لکھ کر رکھ دیا کہ وہ ایک ضروری کام سے جا رہے ہیں اور شاید واپسی میں تین چار دن لگ جائیں ، اپنا سوٹ کیس اٹھایا اور جلدی سے گھر سے نکل گئے

صبیح بھائی نے ایک دن پہلے ہی ایک گاڑی رینٹ پر لے لی تھی، سوٹ کیس اور کچھ ضروری سامان گاڑی میں رکھا اور اپنے سفر پر روانہ ہوگئے

اب سب سے پہلے وہ اپنے ایک دوست کے گھر گئے، جن کا بہت ہی خوبصورت باغیچہ تھا،وہاں سے صبیح بھائی نے کچھ پھول توڑے اور ایک گلدستہ تیار کیا اور گاڑی آگے بڑھا دی، انہیں اپنے دوست سے نہیں ملنا تھا، یہاں آنے کا مقصد صرف مفت کا گلدستہ حاصل کرنا تھا

کچھ دور جاکے نسبتا غیر آباد علاقہ شروع ہو گیا اور پھر گھنڈرات نظر آنے لگے، دن کا وقت ہونے کے باوجود صبیح بھائی کو خوف محسوس ہو رہا تھا، مگر جس مقصد کے لیئے وہ اس ویرانے تک آئے تھے ، انہیں ہمت کرنی ہی تھی

صبیح بھائی گاڑی کی سپیڈ کافی حد تک بڑھا دی تھی کہ انہیں عجیب سی شڑ شڑ کی آوازیں آنے لگی ، وہ تو پہلے ہی خوف زدہ تھے اور انہوں نے سن رکھا تھا کہ ایسے ویرانوں میں جنات اور چڑیلوں کا بسیرا ہوتا ہے اب تو انہیں یقین ہو گیا کہ کوئی تو ہے جو ان کے پیچھا کر رہا ہے ، گاڑی جتنی تیز ہوتی آواز اتنی ہی بڑھ جاتی، خیر جتنی دعائیں انہیں یاد تھیں سب پڑھ ڈالیں، مگر آواز پہ کوئی فرق نہ پڑا

خدا خدا کر کے کھنڈرات کا سلسلہ ختم ہوا اور صبیح بھائی نے بڑی ہمت کر کے گاڑی ایک آبادی کے نزدیک روکی، کیونکہ انہیں شدید پیاس لگ رہی تھی اور گھر سے اتنی تیاری سے نکلنے کے باوجود وہ پانی رکھنا بھول گئے تھے، جیسے ہی گاڑی سے اترے انکی نظر پچھلے پہیے کی طرف گئی جس سے ایک بڑا سا شاپر لپٹا ہوا تھا اور وہ آواز یقینا اسی کی تھی ، اوہ ہ ہ۔۔۔صبیح بھائی کو شدت سے خود پر غصہ آیا کہ کیسا احمق ہوں ، جو ایک شاپر سے ڈر گیا،

لیکن شکر ہے کہ کسی کو پتا نہیں چلا، یہ سوچ کر وہ مسکرا دیئے اور نزدیکی دکان سے پانی کی بوتل خرید ی
صبیح بھائی کو چلتے ہوئے چار گھنٹے ہو چکے تھے ، تقریبا دس بجے کا وقت تھا اور سورج بھی سر پہ آچکا تھا ، اسلیئے انہوں نے پانی پی کر کچھ دیر گاڑی کو ایک بڑے سے درخت کے سائے میں کھڑا کر کے کچھ دیر آرام کرنے کا سوچا
ارادہ تو یہی تھا کہ آدھے گھنٹے میں یہا ں سے نکلیں گے ، مگر کچھ ہی دیر میں آبادی کی طرف سے لوگوں کا ایک ہجوم آتا دکھائی دیاان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے اور وہ عجیب سی زبان میں کچھ شور مچاتے ہوئے گاڑی ہی کی طرف بڑھ رہے تھے
یہ کیا مصیبت ہے، صبیح بھائی بڑبڑائے لیکن خطرہ بھانپتے ہوئے یہاں سے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی اور گاڑی دوڑادی
اس سے آگے کا راستہ انہیں معلوم نہ تھا، اسلیئے گوگل میپ میں لوکیشن سیٹ کی اور منزل کی جانب گامزن ہوگئے

دوپہر کے دو بج رہے تھے اور نجانے کیسے کیسے علاقوں سے گزر کے صبیح بھائی ایک ایسی جگہ پہنچ گئے ، جہاں دور دور کسی ذی روح کا نام و نشان نہ تھا اور جس راستے سے وہ آئے سے اسکے علاوہ باقی تین اطراف میں بڑی بڑی جھاڑیاں اگی ہوئی تھی، جہاں گاڑی تو دور کی بات، سائیکل تک لے جانے کی جگہ نہ تھی

یہاں کی ایک عجیب بات یہ تھی کہ یہاں موجود جھاڑیاں رنگین تھی ، جیسے سامنے موجود جھاڑیوں کا رنگ جامنی تھا اور دائیں بائیں بالترتیب سرخ اور ہلکا سنہری تھا
اخاہ۔۔یہی تو وہ جگہ تھی جہاں تک صبیح بھائی کو پہنچنا تھا اور وہ مقررہ وقت سے دو گھنٹے پہلے ہی یہاں پہنچ گئے تھے

صبیح بھائی نے کھانے کے لیئے کچھ سینڈوچ اور پھل رکھے تھے ، وہ کھائے اور مزے سے تین بج کر پینتالیس منٹ کا الارم لگا کر سوگئے

الارم کی آواز سےجب صبیح بھائی جاگے تو انکے آس پاس کا منظر ہی بدلا ہوا تھا، ایسے جیسے وہاں کوئی تقریب کی تیاریاں ہو رہی ہوں، بہت سے لوگوں کی آوازیں اور کھانوں کی مہک سے صبیح بھائی تو جیسے خوشی سے جھوم ہی اٹھے

کیونکہ یہ سب ان ہی کے تو اعزاز میں تھا

سفر کی ساری تھکن رفو چکر ہوگئی اور صبیح بھائی ہشاش بشاش سے گاڑی سے باہر نکلے، سب سے پہلے اپنا حلیہ درست کیا اور پھر سے سامنے نظر آتے ایک بڑے سے مارکی میں داخل ہو گئے ، جسکا دو گھنٹے پہلے نام و نشان تک نہ تھا
انکی آمد کی دیر تھی، بینڈ باجے والے جو پہلے ہی الرٹ تھے فورا ہی حرکت میں آگئے اور اسطرح اندر موجود لوگوں کو صبیح بھائی کی آمد کی خبر دی



اندر تقریبا ڈیڑھ سو کے قریب لوگ موجود تھے ، سب نے ہی نہ صرف گلے مل کر صبیح بھائی کو مبارکباد دی ، بلکہ پھولوں کے ہار بھی ڈالے

آج واقعی وہ دن تھا جس کے لیئے صبیح بھائی نے برسوں محنت کی تھی ، اس مقام تک آج تک کوئی نہ پہنچ سکا تھا
اب صبیح بھائی کی آنکھیں اپنے محسن کی تلاش میں تھیں ، وہ چوری شدہ گلدستہ جس پہ راستے سے خریدے ہوئے منرل واٹر کا چھڑکاؤ کرکر کے اسے تازہ رکھنے کی کوشش کی گئی تھی، انکے ہاتھ میں تھا

اتنے میں صبیح بھائی کو اپنے عقب سے بدبو کا جھونکا آتا محسوس ہوا، اور پھر کسی نے انہیں بہت ہی گرمجوشی سے گلے لگا لیا

یہ کوئی اور نہیں کھجل سائیں تھے ، صبیح بھائی نے گلدستہ کھجل سائیں کے حوالے کیا او ر پھر دونوں سامنے موجود سٹیج کی طرف بڑھ گئے
اب تو آپ کو صبیح بھائی کی خوشی کی وجہ کا اندازہ ہو ہی گیا ہوگا

خیر پھر بھی ہم بتاتے ہیں کہ صبیح بھائی کو انکی خدمات کے عوض اور اس سے بھی بڑھ کر کھجل سائیں کی ان سے خاص انسیت کی وجہ سے، کھجل سائیں نے صبیح بھائی کو اپنی گدی سونپ دینے کے لیئے اس عالیشان تقریب کا اہتمام کیا تھا

تقریب کا آغاز ہوا اور کھجل سائیں نے تقریر کی جس میں صبیح بھائی کی خدمات کا بہت ہی کھلے دل سے اعتراف کیا اور ساتھ ہی انہیں کھجل سائیں دوئم کا خطاب بھی دیا

اس کے بعد باقاعدہ طور پر صبیح بھائی کو کھجل سائیں کی گدی پہ بٹھایا گیا اور کچھ رسمی حلف لیا گیا، جسکا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ اس کی پاسداری بھی کرنی ہے
آخر میں صبیح بھائی نے سب کا شکریہ ادا کیا اور خصوصی طور پر کھجل سائیں کے ہاتھ انتہائی عقیدت سے چومے اور برکت کے لیئے اپنی آنکھوں سے لگائے

اور اس سارے ڈرامے کے بعد حاضرین کھانے پہ ٹوٹ پڑے اور یوں یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی

صبیح بھائی اس انتہائی حساس گدی کی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لیئے کھجل سائیں کے ساتھ انکے آستانے پہ چلے گئے جہاں وہ شاید دو تین روز قیام کریں گے
ہم سب کی جانب سے صبیح بھائی کو کھجل سائیں دوئم کا خطاب اور کھجل سائیں کی اوریجنل گدی بہت بہت مبارک ہو

صبیح بھائی اپنی تیاریوں میں اتنا مگن تھے کہ انہیں وقت دیکھنے کا خیال ہی نہ رہا، وہ وقت جو وہ سوتے ہوئے گزارتے تھے اور ناشتہ کی میز پر تقریبا اونگھتے ہوئے پہنچتے تھے وہ بھی بیگم کے بیلن کے خوف سے، آج سارا کا سارا ان کی تیاریوں میں گزر گیا کہ انہیں اور کسی چیز کا دھیان ہی نہ رہا، خیر اب اتنی ہمت تو نہ تھی کہ بیگم کو ناشتہ بنانے کا کہتے، خود ہی کچن کا رخ کیا ، جیسے تیسے چائے بنائی ، جو دیکھنےمیں چائے ہرگز نہ لگتی تھی اور ٹر ے میں چائے اور بسکٹ سجا کر ایسے اکڑتے ہوئے ٹیبل تک آئے جیسے آج کوئی میدان فتح کر لیا ہو

چائے کا پہلا سپ ہی ناقابل برداشت تھا ، چھ بج چکے تھے اور اب اتنا وقت نہ تھا کہ دوبارہ سے چائے بنانے کا رسک لیا جاتا، اسلیئے چائے کی بجائے دودھ بسکٹ پہ گزارہ کیا اورایک نوٹ کچن کاؤنٹر پہ لکھ کر رکھ دیا کہ وہ ایک ضروری کام سے جا رہے ہیں اور شاید واپسی میں تین چار دن لگ جائیں ، اپنا سوٹ کیس اٹھایا اور جلدی سے گھر سے نکل گئے

صبیح بھائی نے ایک دن پہلے ہی ایک گاڑی رینٹ پر لے لی تھی، سوٹ کیس اور کچھ ضروری سامان گاڑی میں رکھا اور اپنے سفر پر روانہ ہوگئے

اب سب سے پہلے وہ اپنے ایک دوست کے گھر گئے، جن کا بہت ہی خوبصورت باغیچہ تھا،وہاں سے صبیح بھائی نے کچھ پھول توڑے اور ایک گلدستہ تیار کیا اور گاڑی آگے بڑھا دی، انہیں اپنے دوست سے نہیں ملنا تھا، یہاں آنے کا مقصد صرف مفت کا گلدستہ حاصل کرنا تھا

کچھ دور جاکے نسبتا غیر آباد علاقہ شروع ہو گیا اور پھر گھنڈرات نظر آنے لگے، دن کا وقت ہونے کے باوجود صبیح بھائی کو خوف محسوس ہو رہا تھا، مگر جس مقصد کے لیئے وہ اس ویرانے تک آئے تھے ، انہیں ہمت کرنی ہی تھی

صبیح بھائی گاڑی کی سپیڈ کافی حد تک بڑھا دی تھی کہ انہیں عجیب سی شڑ شڑ کی آوازیں آنے لگی ، وہ تو پہلے ہی خوف زدہ تھے اور انہوں نے سن رکھا تھا کہ ایسے ویرانوں میں جنات اور چڑیلوں کا بسیرا ہوتا ہے اب تو انہیں یقین ہو گیا کہ کوئی تو ہے جو ان کے پیچھا کر رہا ہے ، گاڑی جتنی تیز ہوتی آواز اتنی ہی بڑھ جاتی، خیر جتنی دعائیں انہیں یاد تھیں سب پڑھ ڈالیں، مگر آواز پہ کوئی فرق نہ پڑا

خدا خدا کر کے کھنڈرات کا سلسلہ ختم ہوا اور صبیح بھائی نے بڑی ہمت کر کے گاڑی ایک آبادی کے نزدیک روکی، کیونکہ انہیں شدید پیاس لگ رہی تھی اور گھر سے اتنی تیاری سے نکلنے کے باوجود وہ پانی رکھنا بھول گئے تھے، جیسے ہی گاڑی سے اترے انکی نظر پچھلے پہیے کی طرف گئی جس سے ایک بڑا سا شاپر لپٹا ہوا تھا اور وہ آواز یقینا اسی کی تھی ، اوہ ہ ہ۔۔۔صبیح بھائی کو شدت سے خود پر غصہ آیا کہ کیسا احمق ہوں ، جو ایک شاپر سے ڈر گیا،

لیکن شکر ہے کہ کسی کو پتا نہیں چلا، یہ سوچ کر وہ مسکرا دیئے اور نزدیکی دکان سے پانی کی بوتل خرید ی
صبیح بھائی کو چلتے ہوئے چار گھنٹے ہو چکے تھے ، تقریبا دس بجے کا وقت تھا اور سورج بھی سر پہ آچکا تھا ، اسلیئے انہوں نے پانی پی کر کچھ دیر گاڑی کو ایک بڑے سے درخت کے سائے میں کھڑا کر کے کچھ دیر آرام کرنے کا سوچا
ارادہ تو یہی تھا کہ آدھے گھنٹے میں یہا ں سے نکلیں گے ، مگر کچھ ہی دیر میں آبادی کی طرف سے لوگوں کا ایک ہجوم آتا دکھائی دیاان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے اور وہ عجیب سی زبان میں کچھ شور مچاتے ہوئے گاڑی ہی کی طرف بڑھ رہے تھے
یہ کیا مصیبت ہے، صبیح بھائی بڑبڑائے لیکن خطرہ بھانپتے ہوئے یہاں سے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی اور گاڑی دوڑادی
اس سے آگے کا راستہ انہیں معلوم نہ تھا، اسلیئے گوگل میپ میں لوکیشن سیٹ کی اور منزل کی جانب گامزن ہوگئے

دوپہر کے دو بج رہے تھے اور نجانے کیسے کیسے علاقوں سے گزر کے صبیح بھائی ایک ایسی جگہ پہنچ گئے ، جہاں دور دور کسی ذی روح کا نام و نشان نہ تھا اور جس راستے سے وہ آئے سے اسکے علاوہ باقی تین اطراف میں بڑی بڑی جھاڑیاں اگی ہوئی تھی، جہاں گاڑی تو دور کی بات، سائیکل تک لے جانے کی جگہ نہ تھی
یہاں کی ایک عجیب بات یہ تھی کہ یہاں موجود جھاڑیاں رنگین تھی ، جیسے سامنے موجود جھاڑیوں کا رنگ جامنی تھا اور دائیں بائیں بالترتیب سرخ اور ہلکا سنہری تھا
اخاہ۔۔یہی تو وہ جگہ تھی جہاں تک صبیح بھائی کو پہنچنا تھا اور وہ مقررہ وقت سے دو گھنٹے پہلے ہی یہاں پہنچ گئے تھے

صبیح بھائی نے کھانے کے لیئے کچھ سینڈوچ اور پھل رکھے تھے ، وہ کھائے اور مزے سے تین بج کر پینتالیس منٹ کا الارم لگا کر سوگئے

الارم کی آواز سےجب صبیح بھائی جاگے تو انکے آس پاس کا منظر ہی بدلا ہوا تھا، ایسے جیسے وہاں کوئی تقریب کی تیاریاں ہو رہی ہوں، بہت سے لوگوں کی آوازیں اور کھانوں کی مہک سے صبیح بھائی تو جیسے خوشی سے جھوم ہی اٹھے

کیونکہ یہ سب ان ہی کے تو اعزاز میں تھا
سفر کی ساری تھکن رفو چکر ہوگئی اور صبیح بھائی ہشاش بشاش سے گاڑی سے باہر نکلے، سب سے پہلے اپنا حلیہ درست کیا اور پھر سے سامنے نظر آتے ایک بڑے سے مارکی میں داخل ہو گئے ، جسکا دو گھنٹے پہلے نام و نشان تک نہ تھا
انکی آمد کی دیر تھی، بینڈ باجے والے جو پہلے ہی الرٹ تھے فورا ہی حرکت میں آگئے اور اسطرح اندر موجود لوگوں کو صبیح بھائی کی آمد کی خبر دی



اندر تقریبا ڈیڑھ سو کے قریب لوگ موجود تھے ، سب نے ہی نہ صرف گلے مل کر صبیح بھائی کو مبارکباد دی ، بلکہ پھولوں کے ہار بھی ڈالے
آج واقعی وہ دن تھا جس کے لیئے صبیح بھائی نے برسوں محنت کی تھی ، اس مقام تک آج تک کوئی نہ پہنچ سکا تھا
اب صبیح بھائی کی آنکھیں اپنے محسن کی تلاش میں تھیں ، وہ چوری شدہ گلدستہ جس پہ راستے سے خریدے ہوئے منرل واٹر کا چھڑکاؤ کرکر کے اسے تازہ رکھنے کی کوشش کی گئی تھی، انکے ہاتھ میں تھا

اتنے میں صبیح بھائی کو اپنے عقب سے بدبو کا جھونکا آتا محسوس ہوا، اور پھر کسی نے انہیں بہت ہی گرمجوشی سے گلے لگا لیا

یہ کوئی اور نہیں کھجل سائیں تھے ، صبیح بھائی نے گلدستہ کھجل سائیں کے حوالے کیا او ر پھر دونوں سامنے موجود سٹیج کی طرف بڑھ گئے
اب تو آپ کو صبیح بھائی کی خوشی کی وجہ کا اندازہ ہو ہی گیا ہوگا

خیر پھر بھی ہم بتاتے ہیں کہ صبیح بھائی کو انکی خدمات کے عوض اور اس سے بھی بڑھ کر کھجل سائیں کی ان سے خاص انسیت کی وجہ سے، کھجل سائیں نے صبیح بھائی کو اپنی گدی سونپ دینے کے لیئے اس عالیشان تقریب کا اہتمام کیا تھا

تقریب کا آغاز ہوا اور کھجل سائیں نے تقریر کی جس میں صبیح بھائی کی خدمات کا بہت ہی کھلے دل سے اعتراف کیا اور ساتھ ہی انہیں کھجل سائیں دوئم کا خطاب بھی دیا

اس کے بعد باقاعدہ طور پر صبیح بھائی کو کھجل سائیں کی گدی پہ بٹھایا گیا اور کچھ رسمی حلف لیا گیا، جسکا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ اس کی پاسداری بھی کرنی ہے
آخر میں صبیح بھائی نے سب کا شکریہ ادا کیا اور خصوصی طور پر کھجل سائیں کے ہاتھ انتہائی عقیدت سے چومے اور برکت کے لیئے اپنی آنکھوں سے لگائے

اور اس سارے ڈرامے کے بعد حاضرین کھانے پہ ٹوٹ پڑے اور یوں یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی

صبیح بھائی اس انتہائی حساس گدی کی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لیئے کھجل سائیں کے ساتھ انکے آستانے پہ چلے گئے جہاں وہ شاید دو تین روز قیام کریں گے
ہم سب کی جانب سے صبیح بھائی کو کھجل سائیں دوئم کا خطاب اور کھجل سائیں کی اوریجنل گدی بہت بہت مبارک ہو

Previous thread
Next thread