PakArt UrduLover
Thread Starter
in memoriam 1961-2020، May his soul rest in peace



Charismatic
Designer
Expert
Writer
Popular
Persistent Person
ITD Supporter
ITD Observer
ITD Solo Person
ITD Fan Fictionest
ITD Well Wishir
ITD Intrinsic Person
- Joined
- May 9, 2018
- Local time
- 11:34 PM
- Threads
- 1,353
- Messages
- 7,658
- Reaction score
- 6,974
- Points
- 1,508
- Location
- Manchester U.K
- Gold Coins
- 124.01

پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ
پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ دینی و دنیوی تعلیمات سے یکساں مزین تھے ۔ آپ نے سید المرسلین کے فرمان کے مطابق تعلیم کیلئے چین سے بھی آگے کا سفر کیا۔ تبلیغ دین حنیف کی خاطر دنیا کے کونے کونے تک گئے۔ آپ باعمل عالم، صوفی باشریعت اور پیر طریقت تھے۔ وکی پیڈیا سے دستیاب معلومات کے مطابق ضیاءالامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ ایک عظیم صوفی و روحانی بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایہ ناز مفسر، سیرت نگار، ماہر تعلیم، صحافی، صاحب طرز ادیب اور دیگر بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ تفسیر ضیاءالقرآن، سیرت طیبہ کے موضوع پر ضیا¿النبی صلی اللہ علیہ وسلم، 1971 سے مسلسل اشاعت پذیر ماہنامہ ضیائے حرم لاہور،شاہکار کتاب سُنت خیر الانام، فقہی، تاریخی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر اہم موضوعات پر متعدد مقالات و شذرات آپ کی علمی، روحانی اور ملی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔پیدائش جولائی 1918ءسوموار کی شب بعد نماز تراویح بھیرہ شریف ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ خاندانی روایت کے مطابق آپکی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا۔ محمدیہ غوثیہ پرائمری سکول کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ پرائمری سکول میں اس وقت چار کلاسز ہوتی تھیں اس لحاظ سے اس سکول میں آپکی تعلیم کا سلسلہ 1925ءسے 1929ءتک رہا اس کے بعد آپ نے 1936ء میں گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ آپؒ نے حضرت مولانا محمد قاسم بالا کوٹی سے فارسی کتب کریما، پندنامہ، مصدر فیوض، نامِ حق پڑھیں اور صرف و نحو اور کافیہ بھی پڑھیں۔ اسکے بعد مولانا عبدالحمید صاحب سے الفیہ، شرح جامی، منطق کے رسا ئل، قطبی، میر قطبی، مبزی، ملا حسن اور سنجانی جیسی کتابیں پڑھیں۔ دیگر کئی علما سے بھی آپ نے علم دین کی بعض دوسری مشہور و معروف کتابیں پڑھیں۔ 1941ء میں اورینٹیل کالج لاہور میں داخلہ لیا اور فاضل عربی میں شیخ محمد عربی، جناب رسول خان صاحب، مولانا نورالحق جیسے اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت کے بعد دورہ حدیث شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی کے حکم پر حضرت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی سے 1942ءسے 1943ءتک مکمل کیا اور بعض دیگر کتب بھی پڑھیں۔ 1945ء میں جامعہ پنجاب سے بی اے کا امتحان اچھی پوزیشن سے پاس کیا۔ ستمبر 1951ء میں جامعہ الازہر مصر میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی ساتھ جامعہ قاہرہ سے ایم اے کیا۔ جامعہ الازہر سے ایم فِل نمایاں پوزیشن سے کیا۔ یہاں آپ نے تقریباً ساڑھے تین سال کا عرصہ گزارا۔ 1981ء میں 63 سال کی عمر میں آپ وفاقی شرعی عدالت کے جج مقرر ہوئے اور 16 سال تک اس فرض کی پاسداری کرتے رہے۔ آپ نے متعدد تاریخی فیصلے کئے جو عدالتی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔آپ کی تصانیف میں، ضیاءالقرآن : 3500 صفحات اور 5 جلدوں پر مشتمل ہے، یہ تفسیر آپ نے 19 سال کے طویل عرصہ میں مکمل کی۔
جمال القرآن : قرآن کریم کا خوبصورت محاوراتی اردو ترجمہ جسے انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔ ضیاءالنبی : 7 جلدوں پر مشتمل عشق و محبتِ رسول سے بھرپور سیرت کی یہ کتاب عوام و خواص میں انتہائی مقبول ہے۔ سُنتِ خیر الانام : بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل یہ کتاب سنت اور حدیث کی اہمیت اور حجیت کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ یہ آپ کی پہلی کاوش ہے جو آپ نے جامعہ الازہر میں دورانِ تعلیم تالیف کی۔ 1971ء میں آپ نے ماہنامہ ضیائے حرم کا اجراءکیا جو تاحال مسلسل شائع ہو رہا ہے۔
آپ کو کثیر تعداد میں قومی و عالمی اعزازات سے نوازا گیا۔ جن میں ستارہ امتیازسے حکومت پاکستان نے 1980ءمیں آپ کی علمی و اسلامی خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے نوازا۔ نت الامتیاز مصر کے صدر حسنی مبارک نے 6 مارچ 1993ءمیں دنیائے اسلام کی خدمات کے صلے میں دیا۔ سندِ امتیاز حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر نے 1994ء میں سیرت کے حوالے سے آپ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں دی۔ الدائرہ الفخری ڈاکٹر احمد عمر ہاشم نے جامعہ الازہر کا یہ سب سے بڑا اعزاز آپ کو دیا۔
9 ذوالحجہ 1418ھ بمطابق 7 اپریل 1998ء بروز منگل رات طویل علالت کے بعد آپ کا وصال ہوا۔ آپؒ کے وصال پر پورے عالمِ اسلام سے امت مسلمہ کے عوام و خواص نے جس محبت و عقیدت کا اظہار کیا وہ ایک ضرب المثل بن گیا۔ آپ کی تربت آپ کی وصیت کے مطابق دربار عالیہ حضرت امیر السالکین میں آپ کے دادا جان حضرت پیر امیر شاہ کے بائیں جانب کھودی گئی۔ وصال سے چند ماہ بعد 12 ما رچ بروز جمعتہ المبارک سے مرزا محمد آصف صاحب نے دربار عالیہ میں موجود تینوں قبور کا مشتر کہ تخت بلند کر کے انہیں بہترین قسم کے پتھر سے پختہ کر دیا۔ پیر صاحب کا عرس ہر سال 19، 20 محرم کو ہوتا ہے۔ اسی مناسب سے آپ کی دینی ملی اور قومی خدمات اور شخصیت کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرنے اوران سے رہنمائی لینے کیلئے سالانہ سیمینار کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ہفتہ یکم دسمبر2012 بمطابق 16محرم الحرام1434 ہجری کو لاہور کے آواری ہوٹل میں 7ویں سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا اہتمام نوائے وقت میں نورِ بصیرت کے تخلیق کار رضاءالدین صدیقی صاحب نے حسبِ سابق کیا۔ رضاءالدین صدیقی نے اپنے رہبر و مرشد کی اجازت سے زاویہ فاونڈیشن لاہور کی بنیاد رکھی جس نے نہ صرف تصوف کی معتبر کتب کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا بلکہ ضیا¿الامت جسٹس پیر محمد کرم الازہری کی یاد میں علمی و روحانی تصوف سیمینارز کا انعقاد کر کے خانقاہی نظام اور صوفیا کے متعلق اُٹھنے والے شکوک و شبہات کا شافی و کافی ازالہ کیا ہے۔ یہ سیمینار علم، عشق اور گداز سے معمور ہوتے ہیں جن میں شرکت کرنےوالے اخلاص، ادب، علم اور عشق کی سوغات لےکر جاتے ہیں اور پورا سال اس سیمینار کے انعقاد کے منتظر رہتے ہیں۔ علمی و روحانی سیمینار کی صدارت پیر محمد امین الحسنات شاہ نے فرمائی۔ کمپیئرنگ کی ذمہ داری زاویہ فاونڈیشن کے چیئرمین رضا ءالدین صدیقی نے سرانجام دی۔آغاز قاری عبدالواحد کی مسحور کن تلاوت سے ہوا۔ مہمانانِ گرامی و مقررین میں سرگودہا یونیورسٹی کے شعبہ انگلش کے معروف پروفیسر صاحبزادہ احمد ندیم رانجھا، جامعہ الازہر کے اُستاذ ڈاکٹر حافظ محمد منیر الازہری،سابق ڈائریکٹر مذہبی امور محکمہ اوقاف پنجاب، ڈاکٹر طاہر رضا بخاری ، خواجہ محمد یار فریدی گڑھی اختیار خان، رحیم یار خان کے گدی نشین خواجہ قطب الدین فریدی اورجناب ڈاکٹر عامر لیاقت حسین شامل تھے۔چیئرمین زاویہ فاونڈیشن رضاءالدین صدیقی نے بتایا کہ ایک شخص نے مجھ سے فون پر رابطہ کر کے اعتراض کیا کہ شخصیت پرستی کب ختم ہو گی؟ اس شبہ کے ازالہ کیلئے صدیقی صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ ایک یہودی نے امام محمد کا شہرہ سُنا تو حاضرِ خدمت ہوا، سوال و جواب کئے، متانت، خلوص اور تاثیر دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ اگر چھوٹا محمد اتنا خوبصورت ہے تو بڑا محمد کتنا خوبصورت ہو گا جن کا یہ غلام ہے۔ بزرگوں کی یاد میں سیمینار منعقد کرنا شخصیت پرستی نہیں بلکہ شخصیت شناسی ہے اور اس طرح حقیقت کا احساس ہوتا ہے کہ مشکوٰة نبوت سے اکتساب نور کرنے والے کتنے حسین ہوا کرتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو ضیاءالامت کی شخصیت دیکھ لو
۔ ہم تو دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ جس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جلوہ گر ہوتی ہے اس کے وجود میں حسن سمٹ آتا ہے۔ سیمینار کے صدر نشین، ضیاءالامت کے جانشین پیر محمد امین الحسنات شاہ (چیئرمین متحدہ علماءبورڈ پنجاب) نے اپنے خطاب میں فرمایا پہلے پروردگار نے دشمنوں کی زبان سے صادق و امین کہلوایا پھر اعلان نبوت کروایا، گویا جسے منصب ملے وہ صادق و امین ہونا چاہئے۔ ضیاءالامت بھی صادق و امین تھے، جب آپ خواجہ محمد شریف (سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ) کی دعوت پر تشریف لے گئے تو کسی نے آپ کو سید کرم شاہ کہا تو آپ نے کھڑے ہو کر نہایت عاجزی سے کہا کہ لوگو! میں سید نہیں ہوں ،میں سادات کا غلام ہوں۔ میرا خاندان ہاشمی ہے۔ ساری سعادتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین کے صدقہ ہیں۔ والد گرامی نے دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی بنیاد ایک کمرے سے رکھی، آج سینکڑوں بلڈنگیں اور ادارے اسی ایک کمرے کی خیرات ہیں۔آپ نے اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا کہ ضیا¿الامت اپنے بیٹوں کو اکٹھا کر کے نصیحت فرماتے : دو باتوں (-i امانت -ii بے تدبیری سے گریز) کی تم گارنٹی دو تیسری بات (کہ تمہیں کبھی کمی نہیں آئے گی) کی میں گارنٹی دیتا ہوں۔ قبلہ پیر صاحب نے فرمایا کہ امانت ممکن ہے لیکن بے تدبیری سے بچنا ازحد مشکل ہے۔ آپ نے یہ بھی بتایا کہ دنیا کے پاس سب کچھ ہے لیکن کردار نہیں ہے اور کردار صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے پاس ہے، اس حوالے سے آپ نے نیویارک میں مقیم ایک مسلم طالب علم کا واقعہ بھی سُنایا کہ اُس نے ایک خاتون کا پرس، جو اس کی ٹیکسی میں بھول گئی تھی جس میں ہزاروں ڈالر تھے، کسی طرح اس تک واپس پہنچایا اور جب اُس نے انعام دیا تو یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ میرے کنٹریکٹ کا حصہ تھا، میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔یہ بات نیویارک میں پھیل گئی جب یہ بات مئیر کو معلوم ہوئی تو اس نے بلایا اور ایک نئی ٹیکسی کا اس کیلئے مفت اعلان کیا تو اُس مسلمان طالب علم نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہمارے پیارے نبی نے صداقت و امانت بیچنے سے منع فرمایا ہے۔
پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ دینی و دنیوی تعلیمات سے یکساں مزین تھے ۔ آپ نے سید المرسلین کے فرمان کے مطابق تعلیم کیلئے چین سے بھی آگے کا سفر کیا۔ تبلیغ دین حنیف کی خاطر دنیا کے کونے کونے تک گئے۔ آپ باعمل عالم، صوفی باشریعت اور پیر طریقت تھے۔ وکی پیڈیا سے دستیاب معلومات کے مطابق ضیاءالامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ ایک عظیم صوفی و روحانی بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایہ ناز مفسر، سیرت نگار، ماہر تعلیم، صحافی، صاحب طرز ادیب اور دیگر بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ تفسیر ضیاءالقرآن، سیرت طیبہ کے موضوع پر ضیا¿النبی صلی اللہ علیہ وسلم، 1971 سے مسلسل اشاعت پذیر ماہنامہ ضیائے حرم لاہور،شاہکار کتاب سُنت خیر الانام، فقہی، تاریخی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر اہم موضوعات پر متعدد مقالات و شذرات آپ کی علمی، روحانی اور ملی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔پیدائش جولائی 1918ءسوموار کی شب بعد نماز تراویح بھیرہ شریف ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ خاندانی روایت کے مطابق آپکی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا۔ محمدیہ غوثیہ پرائمری سکول کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ پرائمری سکول میں اس وقت چار کلاسز ہوتی تھیں اس لحاظ سے اس سکول میں آپکی تعلیم کا سلسلہ 1925ءسے 1929ءتک رہا اس کے بعد آپ نے 1936ء میں گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ آپؒ نے حضرت مولانا محمد قاسم بالا کوٹی سے فارسی کتب کریما، پندنامہ، مصدر فیوض، نامِ حق پڑھیں اور صرف و نحو اور کافیہ بھی پڑھیں۔ اسکے بعد مولانا عبدالحمید صاحب سے الفیہ، شرح جامی، منطق کے رسا ئل، قطبی، میر قطبی، مبزی، ملا حسن اور سنجانی جیسی کتابیں پڑھیں۔ دیگر کئی علما سے بھی آپ نے علم دین کی بعض دوسری مشہور و معروف کتابیں پڑھیں۔ 1941ء میں اورینٹیل کالج لاہور میں داخلہ لیا اور فاضل عربی میں شیخ محمد عربی، جناب رسول خان صاحب، مولانا نورالحق جیسے اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت کے بعد دورہ حدیث شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی کے حکم پر حضرت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی سے 1942ءسے 1943ءتک مکمل کیا اور بعض دیگر کتب بھی پڑھیں۔ 1945ء میں جامعہ پنجاب سے بی اے کا امتحان اچھی پوزیشن سے پاس کیا۔ ستمبر 1951ء میں جامعہ الازہر مصر میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی ساتھ جامعہ قاہرہ سے ایم اے کیا۔ جامعہ الازہر سے ایم فِل نمایاں پوزیشن سے کیا۔ یہاں آپ نے تقریباً ساڑھے تین سال کا عرصہ گزارا۔ 1981ء میں 63 سال کی عمر میں آپ وفاقی شرعی عدالت کے جج مقرر ہوئے اور 16 سال تک اس فرض کی پاسداری کرتے رہے۔ آپ نے متعدد تاریخی فیصلے کئے جو عدالتی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔آپ کی تصانیف میں، ضیاءالقرآن : 3500 صفحات اور 5 جلدوں پر مشتمل ہے، یہ تفسیر آپ نے 19 سال کے طویل عرصہ میں مکمل کی۔
جمال القرآن : قرآن کریم کا خوبصورت محاوراتی اردو ترجمہ جسے انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔ ضیاءالنبی : 7 جلدوں پر مشتمل عشق و محبتِ رسول سے بھرپور سیرت کی یہ کتاب عوام و خواص میں انتہائی مقبول ہے۔ سُنتِ خیر الانام : بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل یہ کتاب سنت اور حدیث کی اہمیت اور حجیت کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ یہ آپ کی پہلی کاوش ہے جو آپ نے جامعہ الازہر میں دورانِ تعلیم تالیف کی۔ 1971ء میں آپ نے ماہنامہ ضیائے حرم کا اجراءکیا جو تاحال مسلسل شائع ہو رہا ہے۔
آپ کو کثیر تعداد میں قومی و عالمی اعزازات سے نوازا گیا۔ جن میں ستارہ امتیازسے حکومت پاکستان نے 1980ءمیں آپ کی علمی و اسلامی خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے نوازا۔ نت الامتیاز مصر کے صدر حسنی مبارک نے 6 مارچ 1993ءمیں دنیائے اسلام کی خدمات کے صلے میں دیا۔ سندِ امتیاز حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر نے 1994ء میں سیرت کے حوالے سے آپ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں دی۔ الدائرہ الفخری ڈاکٹر احمد عمر ہاشم نے جامعہ الازہر کا یہ سب سے بڑا اعزاز آپ کو دیا۔
9 ذوالحجہ 1418ھ بمطابق 7 اپریل 1998ء بروز منگل رات طویل علالت کے بعد آپ کا وصال ہوا۔ آپؒ کے وصال پر پورے عالمِ اسلام سے امت مسلمہ کے عوام و خواص نے جس محبت و عقیدت کا اظہار کیا وہ ایک ضرب المثل بن گیا۔ آپ کی تربت آپ کی وصیت کے مطابق دربار عالیہ حضرت امیر السالکین میں آپ کے دادا جان حضرت پیر امیر شاہ کے بائیں جانب کھودی گئی۔ وصال سے چند ماہ بعد 12 ما رچ بروز جمعتہ المبارک سے مرزا محمد آصف صاحب نے دربار عالیہ میں موجود تینوں قبور کا مشتر کہ تخت بلند کر کے انہیں بہترین قسم کے پتھر سے پختہ کر دیا۔ پیر صاحب کا عرس ہر سال 19، 20 محرم کو ہوتا ہے۔ اسی مناسب سے آپ کی دینی ملی اور قومی خدمات اور شخصیت کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرنے اوران سے رہنمائی لینے کیلئے سالانہ سیمینار کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ہفتہ یکم دسمبر2012 بمطابق 16محرم الحرام1434 ہجری کو لاہور کے آواری ہوٹل میں 7ویں سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا اہتمام نوائے وقت میں نورِ بصیرت کے تخلیق کار رضاءالدین صدیقی صاحب نے حسبِ سابق کیا۔ رضاءالدین صدیقی نے اپنے رہبر و مرشد کی اجازت سے زاویہ فاونڈیشن لاہور کی بنیاد رکھی جس نے نہ صرف تصوف کی معتبر کتب کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا بلکہ ضیا¿الامت جسٹس پیر محمد کرم الازہری کی یاد میں علمی و روحانی تصوف سیمینارز کا انعقاد کر کے خانقاہی نظام اور صوفیا کے متعلق اُٹھنے والے شکوک و شبہات کا شافی و کافی ازالہ کیا ہے۔ یہ سیمینار علم، عشق اور گداز سے معمور ہوتے ہیں جن میں شرکت کرنےوالے اخلاص، ادب، علم اور عشق کی سوغات لےکر جاتے ہیں اور پورا سال اس سیمینار کے انعقاد کے منتظر رہتے ہیں۔ علمی و روحانی سیمینار کی صدارت پیر محمد امین الحسنات شاہ نے فرمائی۔ کمپیئرنگ کی ذمہ داری زاویہ فاونڈیشن کے چیئرمین رضا ءالدین صدیقی نے سرانجام دی۔آغاز قاری عبدالواحد کی مسحور کن تلاوت سے ہوا۔ مہمانانِ گرامی و مقررین میں سرگودہا یونیورسٹی کے شعبہ انگلش کے معروف پروفیسر صاحبزادہ احمد ندیم رانجھا، جامعہ الازہر کے اُستاذ ڈاکٹر حافظ محمد منیر الازہری،سابق ڈائریکٹر مذہبی امور محکمہ اوقاف پنجاب، ڈاکٹر طاہر رضا بخاری ، خواجہ محمد یار فریدی گڑھی اختیار خان، رحیم یار خان کے گدی نشین خواجہ قطب الدین فریدی اورجناب ڈاکٹر عامر لیاقت حسین شامل تھے۔چیئرمین زاویہ فاونڈیشن رضاءالدین صدیقی نے بتایا کہ ایک شخص نے مجھ سے فون پر رابطہ کر کے اعتراض کیا کہ شخصیت پرستی کب ختم ہو گی؟ اس شبہ کے ازالہ کیلئے صدیقی صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ ایک یہودی نے امام محمد کا شہرہ سُنا تو حاضرِ خدمت ہوا، سوال و جواب کئے، متانت، خلوص اور تاثیر دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ اگر چھوٹا محمد اتنا خوبصورت ہے تو بڑا محمد کتنا خوبصورت ہو گا جن کا یہ غلام ہے۔ بزرگوں کی یاد میں سیمینار منعقد کرنا شخصیت پرستی نہیں بلکہ شخصیت شناسی ہے اور اس طرح حقیقت کا احساس ہوتا ہے کہ مشکوٰة نبوت سے اکتساب نور کرنے والے کتنے حسین ہوا کرتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو ضیاءالامت کی شخصیت دیکھ لو
۔ ہم تو دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ جس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جلوہ گر ہوتی ہے اس کے وجود میں حسن سمٹ آتا ہے۔ سیمینار کے صدر نشین، ضیاءالامت کے جانشین پیر محمد امین الحسنات شاہ (چیئرمین متحدہ علماءبورڈ پنجاب) نے اپنے خطاب میں فرمایا پہلے پروردگار نے دشمنوں کی زبان سے صادق و امین کہلوایا پھر اعلان نبوت کروایا، گویا جسے منصب ملے وہ صادق و امین ہونا چاہئے۔ ضیاءالامت بھی صادق و امین تھے، جب آپ خواجہ محمد شریف (سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ) کی دعوت پر تشریف لے گئے تو کسی نے آپ کو سید کرم شاہ کہا تو آپ نے کھڑے ہو کر نہایت عاجزی سے کہا کہ لوگو! میں سید نہیں ہوں ،میں سادات کا غلام ہوں۔ میرا خاندان ہاشمی ہے۔ ساری سعادتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین کے صدقہ ہیں۔ والد گرامی نے دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی بنیاد ایک کمرے سے رکھی، آج سینکڑوں بلڈنگیں اور ادارے اسی ایک کمرے کی خیرات ہیں۔آپ نے اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا کہ ضیا¿الامت اپنے بیٹوں کو اکٹھا کر کے نصیحت فرماتے : دو باتوں (-i امانت -ii بے تدبیری سے گریز) کی تم گارنٹی دو تیسری بات (کہ تمہیں کبھی کمی نہیں آئے گی) کی میں گارنٹی دیتا ہوں۔ قبلہ پیر صاحب نے فرمایا کہ امانت ممکن ہے لیکن بے تدبیری سے بچنا ازحد مشکل ہے۔ آپ نے یہ بھی بتایا کہ دنیا کے پاس سب کچھ ہے لیکن کردار نہیں ہے اور کردار صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے پاس ہے، اس حوالے سے آپ نے نیویارک میں مقیم ایک مسلم طالب علم کا واقعہ بھی سُنایا کہ اُس نے ایک خاتون کا پرس، جو اس کی ٹیکسی میں بھول گئی تھی جس میں ہزاروں ڈالر تھے، کسی طرح اس تک واپس پہنچایا اور جب اُس نے انعام دیا تو یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ میرے کنٹریکٹ کا حصہ تھا، میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔یہ بات نیویارک میں پھیل گئی جب یہ بات مئیر کو معلوم ہوئی تو اس نے بلایا اور ایک نئی ٹیکسی کا اس کیلئے مفت اعلان کیا تو اُس مسلمان طالب علم نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہمارے پیارے نبی نے صداقت و امانت بیچنے سے منع فرمایا ہے۔
Previous thread
Next thread