السلام علیکم۔کچھ ہفتوں کے بعد پورے پاکستان میں تیئس 23 مارچ کا جشن ساری دنیا میں منایا جائے گا۔اور اس موقع پر آئی ٹی درسگاہ پر بھی ہم سبھی اس جشن کو جوش خروش سے منایئں گے۔میں چونکہ اس دوران پاکستان میں ہونگا۔تو مجھے لگا اپنے حصے کا تھریڈ بناکر فورم پر اپنے حصہ شامل کر دوں۔اور میرے سبھی دوست میری عدم موجودگی میں اس دھاگے کو اپنی تحریروں اور تصاویر سے فورم کو بارونق رکھینگے۔شکریہ
****
قراردادِ پاکستان: 23 مارچ سے 24 مارچ تک کا سفر
ہم ایک ایسی سیاسی تاریخ کے طالب علم ہیں جس میں حقائق کم اور مغالطے و مبالغے زیادہ پائے جاتے ہیں، جی ہاں ہم شاگرد ہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے۔ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مضامین کے ذریعے تاریخ کی حقیقت پر سے ان مغالطوں اور مبالغوں کی گرد ہٹائی جائے مثلاً پاکستان کی تاریخ پیدائش 14 کے بجائے 15 اگست ہے یا محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب ’مائے برادر‘ کے دو صفحے غائب کیے گئے۔
آج ہمارا موضوع 23 مارچ کی قراردادِ پاکستان ہے، لیکن متعدد حوالہ جات اس بات کی طرف اشارے کرتے ہیں کہ یہ قرارداد 24 مارچ 1940ء کو منظور کی گئی تھی۔ قراردادِ لاہور کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ برِصغیر میں بسنے والے مسلمانوں نے لاہور اقبال پارک (منٹو پارک) کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے 1940ء کے سالانہ اجلاس میں اپنے لیے ایک الگ خطے کے مطالبے کی قرارداد منظور کی تھی۔ قراردادِ لاہور جو بعد ازاں قراردادِ پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی پاکستان کے قیام کی بنیاد قرار دی جاتی ہے۔
ایک عام پاکستانی کے لیے تاریخ کے ماخذ ملک کی درسی کتابیں ہیں یا پھر وہ غیر سرکاری مصنفین کی تصانیف جو درسی کتابوں کا ہی ’پرتو‘ سمجھی جاتی ہیں، ان میں درج حوالوں کے مرہونِ منت ایک عام پاکستانی کے نزدیک 23 مارچ کی تاریخ ہی قراردادِ پاکستان یا قراردادِ لاہور کی منظوری کی تاریخ ہے۔
تاہم اگر برِصغیر کی تاریخ کے اس اہم تاریخی واقعے کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ قراردادِ پاکستان 23 مارچ کو نہیں بلکہ 24 مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں منظور ہوئی تھی۔ اِس حقیقت کا علم مزید دلچسپ اس لیے بھی ہے کہ یہ تاریخی قرارداد 24 مارچ کو بھی اس وقت منظور ہوئی جب عیسوی کلینڈر کی تاریخ بدلنے میں فقط نصف گھنٹہ رہ گیا تھا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ قرارداد 24 مارچ 1940ء کو رات کے ساڑھے 11 بجے منظور کی گئی تھی۔
اس سے قبل 1938ء میں اسی طرز کی ایک قرارداد کراچی میں منظور کی گئی۔ 1938ء اور 1940ء کی قراردادوں میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ 1938ء والی قرارداد میں ایک الگ وطن کی بات کی گئی تھی جبکہ 1940ء میں ایک سے زائد ریاستوں کا ذکر تھا۔
پڑھیے: 1906ء سے 1948ء: طلوعِ پاکستان
یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ 1938ء کی قرارداد کو 1940ء کی قرارداد جتنی اہمیت کیوں حاصل نہ ہوسکی؟ قراردادِ لاہور سے 2 سال قبل کراچی کے عید گاہ میدان میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زیرِ صدارت سندھ صوبائی مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں برِصغیر کے تمام سرکردہ مسلم رہنماؤں نے شرکت کی۔ قائدِ اعظم اکیڈمی کراچی کی مطبوعہ 1989ء ’سندھ صوبائی لیگ کانفرنس 1938ء: پس منظر و اہمیت‘ کے مطابق اس کانفرنس میں شیخ عبدالمجید سندھی نے ایک طویل قرارداد پیش کی جس میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا، قرارداد کے متن کا آخری حصہ یوں تھا کہ،’یہ کانفرنس براعظم (ہندوستان) میں دائمی امن اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی آزادی کے ساتھ ثقافتی ترقی، اقتصادی و سماجی بہبودی اور سیاسی خود ارادی کے مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کو یہ تجویز دینا انتہائی ضروری سمجھتی ہے کہ وہ اس بات پر ازسرِ نو غور کرے کہ ہندوستان کے لیے کون سا آئین مناسب ہوگا جس کے ذریعے دونوں قومیں اپنا جائز مقام حاصل کرسکیں اور ایک ایسا آئینی منصوبہ تیار کرے جس کے تحت مسلمان قوم مکمل طور پر آزادی حاصل کرسکے۔‘
قائد اعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی خان قراردادِ لاہور کا مطالعہ کر رہے ہیں—تصویر بشکریہ لاہور میوزیم
یہ تھا کچھ احوال سندھ کے شہر کراچی کے عید گاہ گراؤنڈ میں منظور ہونے والی قرارداد کا، آئیے اب دوبارہ رخ کرتے ہیں اپنے اصل موضوع یعنی قراردادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان کی طرف۔
لاہور قرارداد 24 مارچ کو منظور ہوئی، جس کی تصدیق مختلف تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں قیامِ پاکستان سے قبل تحریکِ پاکستان اور بعد از قیام ملک کی قومی تاریخ پر ’کے کے عزیز‘ کی تصنیف ’تاریخ کا قتل‘ Murder of History ایسے ہی کچھ خود ساختہ تاریخی مغالطوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ کے کے عزیز اپنی اس کتاب کے صفحے نمبر 142 میں قراردادِ پاکستان کی منظوری کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں کہ،
کے کے عزیر کی کتاب ’تاریخ کا قتل‘ کا سرورق۔
قراردادِ پاکستان: 23 مارچ سے 24 مارچ تک کا سفر
ہم ایک ایسی سیاسی تاریخ کے طالب علم ہیں جس میں حقائق کم اور مغالطے و مبالغے زیادہ پائے جاتے ہیں، جی ہاں ہم شاگرد ہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے۔ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مضامین کے ذریعے تاریخ کی حقیقت پر سے ان مغالطوں اور مبالغوں کی گرد ہٹائی جائے مثلاً پاکستان کی تاریخ پیدائش 14 کے بجائے 15 اگست ہے یا محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب ’مائے برادر‘ کے دو صفحے غائب کیے گئے۔
آج ہمارا موضوع 23 مارچ کی قراردادِ پاکستان ہے، لیکن متعدد حوالہ جات اس بات کی طرف اشارے کرتے ہیں کہ یہ قرارداد 24 مارچ 1940ء کو منظور کی گئی تھی۔ قراردادِ لاہور کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ برِصغیر میں بسنے والے مسلمانوں نے لاہور اقبال پارک (منٹو پارک) کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے 1940ء کے سالانہ اجلاس میں اپنے لیے ایک الگ خطے کے مطالبے کی قرارداد منظور کی تھی۔ قراردادِ لاہور جو بعد ازاں قراردادِ پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی پاکستان کے قیام کی بنیاد قرار دی جاتی ہے۔
ایک عام پاکستانی کے لیے تاریخ کے ماخذ ملک کی درسی کتابیں ہیں یا پھر وہ غیر سرکاری مصنفین کی تصانیف جو درسی کتابوں کا ہی ’پرتو‘ سمجھی جاتی ہیں، ان میں درج حوالوں کے مرہونِ منت ایک عام پاکستانی کے نزدیک 23 مارچ کی تاریخ ہی قراردادِ پاکستان یا قراردادِ لاہور کی منظوری کی تاریخ ہے۔
تاہم اگر برِصغیر کی تاریخ کے اس اہم تاریخی واقعے کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ قراردادِ پاکستان 23 مارچ کو نہیں بلکہ 24 مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں منظور ہوئی تھی۔ اِس حقیقت کا علم مزید دلچسپ اس لیے بھی ہے کہ یہ تاریخی قرارداد 24 مارچ کو بھی اس وقت منظور ہوئی جب عیسوی کلینڈر کی تاریخ بدلنے میں فقط نصف گھنٹہ رہ گیا تھا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ قرارداد 24 مارچ 1940ء کو رات کے ساڑھے 11 بجے منظور کی گئی تھی۔
اس سے قبل 1938ء میں اسی طرز کی ایک قرارداد کراچی میں منظور کی گئی۔ 1938ء اور 1940ء کی قراردادوں میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ 1938ء والی قرارداد میں ایک الگ وطن کی بات کی گئی تھی جبکہ 1940ء میں ایک سے زائد ریاستوں کا ذکر تھا۔
پڑھیے: 1906ء سے 1948ء: طلوعِ پاکستان
یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ 1938ء کی قرارداد کو 1940ء کی قرارداد جتنی اہمیت کیوں حاصل نہ ہوسکی؟ قراردادِ لاہور سے 2 سال قبل کراچی کے عید گاہ میدان میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زیرِ صدارت سندھ صوبائی مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں برِصغیر کے تمام سرکردہ مسلم رہنماؤں نے شرکت کی۔ قائدِ اعظم اکیڈمی کراچی کی مطبوعہ 1989ء ’سندھ صوبائی لیگ کانفرنس 1938ء: پس منظر و اہمیت‘ کے مطابق اس کانفرنس میں شیخ عبدالمجید سندھی نے ایک طویل قرارداد پیش کی جس میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا، قرارداد کے متن کا آخری حصہ یوں تھا کہ،’یہ کانفرنس براعظم (ہندوستان) میں دائمی امن اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی آزادی کے ساتھ ثقافتی ترقی، اقتصادی و سماجی بہبودی اور سیاسی خود ارادی کے مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کو یہ تجویز دینا انتہائی ضروری سمجھتی ہے کہ وہ اس بات پر ازسرِ نو غور کرے کہ ہندوستان کے لیے کون سا آئین مناسب ہوگا جس کے ذریعے دونوں قومیں اپنا جائز مقام حاصل کرسکیں اور ایک ایسا آئینی منصوبہ تیار کرے جس کے تحت مسلمان قوم مکمل طور پر آزادی حاصل کرسکے۔‘

قائد اعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی خان قراردادِ لاہور کا مطالعہ کر رہے ہیں—تصویر بشکریہ لاہور میوزیم
یہ تھا کچھ احوال سندھ کے شہر کراچی کے عید گاہ گراؤنڈ میں منظور ہونے والی قرارداد کا، آئیے اب دوبارہ رخ کرتے ہیں اپنے اصل موضوع یعنی قراردادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان کی طرف۔
لاہور قرارداد 24 مارچ کو منظور ہوئی، جس کی تصدیق مختلف تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں قیامِ پاکستان سے قبل تحریکِ پاکستان اور بعد از قیام ملک کی قومی تاریخ پر ’کے کے عزیز‘ کی تصنیف ’تاریخ کا قتل‘ Murder of History ایسے ہی کچھ خود ساختہ تاریخی مغالطوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ کے کے عزیز اپنی اس کتاب کے صفحے نمبر 142 میں قراردادِ پاکستان کی منظوری کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں کہ،

کے کے عزیر کی کتاب ’تاریخ کا قتل‘ کا سرورق۔
’آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی کارروائی 22 مارچ 1940ء کو شروع ہوئی۔ نواب ممدوٹ نے استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر افتتاحی خطاب کیا۔ جناح صاحب نے فی البدیہہ طویل تقریر کی اور اس کے ساتھ ہی اس دن کی کارروائی اختتام کو پہنچی۔ 23 مارچ 1940ء کو اجلاس کی کارروائی 3 بجے سہ پہر شروع ہوئی۔ بنگال کے وزیر اعظم اے کے فضل حق نے قراردادِ لاہور پیش کی اور اس کی حمایت میں تقریر کی۔ چوہدری خلیق الزمان نے اس قرارداد کی تائید کی اور مختصر سا خطاب کیا۔
اس کے بعد ظفر علی خان، سردار اورنگزیب خان اور عبداللہ ہارون نے قرارداد کی تائید میں مختصر تقاریر کیں، اور اجلاس کی کارروائی کو اگلے دن کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ 24 مارچ کو اجلاس کی کارروائی دن کے سوا 11 بجے شروع ہوئی۔ متحدہ صوبہ جات کے نواب محمد اسماعیل خان، بلوچستان کے قاضی محمد عیسیٰ اور عبدالحمید خان آف مدراس نے قراردادِ لاہور کے حق میں تقاریر کیں۔
اس موقع پر جناح صاحب اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے جو صبح کے وقت کچھ دوسرے اہم نوعیت کے کاموں میں مصروف تھے۔ جناح صاحب نے اسٹیج پر پہنچ کر کرسی صدارت سنبھالی اور قرارداد کے حق میں تقاریر کا سلسلہ جاری رہا۔ بمبئی کے اسماعیل ابراہیم چندریگر، وسطی صوبہ جات کے سید عبد الرؤف شاہ اور پنجاب کے ڈاکٹر محمد اسلم نے قرارداد کی حمایت میں بڑی پرجوش تقاریر کیں۔ اس موقع پر جناح صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے عبدالرحمان صدیقی کو فلسطین پر قرارداد پیش کرنے کی ہدایت کی۔ سید رضا علی اور عبد الحمید بدایونی نے اس قرارداد کی تائید میں تقاریر کیں اور قرارداد فوری طور پر منظور کرلی گئی۔
اس کے بعد ظفر علی خان، سردار اورنگزیب خان اور عبداللہ ہارون نے قرارداد کی تائید میں مختصر تقاریر کیں، اور اجلاس کی کارروائی کو اگلے دن کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ 24 مارچ کو اجلاس کی کارروائی دن کے سوا 11 بجے شروع ہوئی۔ متحدہ صوبہ جات کے نواب محمد اسماعیل خان، بلوچستان کے قاضی محمد عیسیٰ اور عبدالحمید خان آف مدراس نے قراردادِ لاہور کے حق میں تقاریر کیں۔
اس موقع پر جناح صاحب اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے جو صبح کے وقت کچھ دوسرے اہم نوعیت کے کاموں میں مصروف تھے۔ جناح صاحب نے اسٹیج پر پہنچ کر کرسی صدارت سنبھالی اور قرارداد کے حق میں تقاریر کا سلسلہ جاری رہا۔ بمبئی کے اسماعیل ابراہیم چندریگر، وسطی صوبہ جات کے سید عبد الرؤف شاہ اور پنجاب کے ڈاکٹر محمد اسلم نے قرارداد کی حمایت میں بڑی پرجوش تقاریر کیں۔ اس موقع پر جناح صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے عبدالرحمان صدیقی کو فلسطین پر قرارداد پیش کرنے کی ہدایت کی۔ سید رضا علی اور عبد الحمید بدایونی نے اس قرارداد کی تائید میں تقاریر کیں اور قرارداد فوری طور پر منظور کرلی گئی۔

لاہور کے منٹو پارک میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ہمراہ نواب ممدوٹ کھڑے ہیں—تصویر نیشنل آرکائیوز اسلام آباد
جس کے بعد اجلاس کی کارروائی کو رات 9 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ رات کو میٹنگ شروع ہوئی تو سید ذاکر علی اور بیگم محمد علی اس قرارداد کے حق میں بولے اور پھر قراداد کو رائے شماری کے لیے اجلاس میں پیش کیا گیا جسے اجلاس کے شرکاء نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ اس کے فوراً بعد خاکساروں اور جماعت کے آئین میں تبدیلی کے سلسلے میں مزید 2 قراردادیں پیش کی گئیں اور انہیں بھی فوراً منظور کرلیا گیا۔ بعد ازاں اگلے سال کے لیے جماعت کے عہدیداروں کا انتخاب عمل میں لایا گیا اور جناح صاحب نے ایک مختصر سا خطاب کیا۔ جب اجلاس کا اختتام ہوا تو گھڑی کی سوئیاں رات کے ساڑھے 11 بجے کا اعلان کر رہی تھیں۔’
اگر قرارداد کی منظوری میں آدھے گھنٹے کی تاخیر ہوجاتی تو یہ قرارداد 24 کے بجائے 25 مارچ کو منظور ہوتی۔ کے کے عزیز اجلاس کی لمحہ بہ لمحہ کارروائی کو قلمبند کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس میں ذرا سا بھی شائبہ نہیں کہ قراردادِ لاہور 24 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی تھی۔‘
احمد سلیم شیخ کی کتاب ’انسائیکلو پیڈیا تحریکِ پاکستان‘ مطبوعہ 2011ء بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہے کہ قراردادِ لاہور 23 مارچ کے بجائے 24 مارچ کو منظور ہوئی تھی۔
احمد سلیم شیخ اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ، ’قرار دادِ لاہور 24 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی‘ تاہم وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ چونکہ قرارداد 23 مارچ کو پیش کی گئی تھی اس لیے یہ دن 23 مارچ کو منایا جاتا ہے۔
محمد الیاس اپنی کتاب ’جدوجہدِ پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ
’ابتدائی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ قرارداد مولانا ظفر علی خان پیش کریں گے مگر بعد میں قائدِ اعظم نے فیصلہ کیا کہ قرارداد بنگال کے وزیر اعظم اے کے فضل حق پیش کریں۔ 23 مارچ 1940ء کو یہ قرارداد پیش کی گئی۔ قرارداد کی حمایت میں تقریروں کا سلسلہ جاری تھا کہ نماز کا وقت آگیا اور اگلے دن تک اجلاس کو ملتوی کردیا گیا۔ 24 مارچ کو پھر اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس دن اجلاس میں سید ذاکر علی، ڈاکٹر محمد عالم، عبد الحمید خان، سید عبدالرؤف شاہ، اسماعیل ابراہیم چندریگر، نواب محمد اسماعیل، بیگم محمد علی، مولانا عبدالحمید بدایونی اور قاضی محمد عیسیٰ نے قرارداد کی حمایت میں تقاریر کیں، تاہم اس کے بعد مصنف داستان ادھوری چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ قرارداد کی منظوری کا کیا بنا۔
پڑھیے: قائدِ اعظم کی جائے پیدائش: اوریجنل یا چائنا؟
قارئین کے لیے یہ حقیقت بھی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ تحریک پاکستان میں سرگرم رہنے والے رہنماؤں نے بعدازاں جب قراردادِ لاہور کو قلمبند کیا تو وہ بھی اس مغالطے کا شکار رہے کہ قراردادِ لاہور 24 مارچ کے بجائے 23 مارچ کو منظور ہوئی۔ یہاں جی الانہ کی کتاب ’قائدِ اعظم: ایک قوم کی سرگزشت‘ کی ہی مثال لیجیے، جی الانہ معروف اسکالر اور قائدِ اعظم کی سوانح عمری لکھنے والے اہم مسلم لیگی رہنما تھے، وہ اپنی اس کتاب کے صفحے نمبر 385 پر لکھتے ہیں کہ،
’23 مارچ 1940ء کو لاہور میں اس قرارداد کی منظوری سے ہندو اور کانگرس دہل کر رہ گئے۔ انہیں نوشتہ دیوار نظر آرہا تھا اور انہیں یقین ہوگیا تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کو ’خودمختار ریاستوں‘ میں تقسیم کرنے کی وکالت کر رہی ہے۔ہندوؤں اور کانگریس کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی، ہندو اخباروں نے قرارداد کی مذمت میں ان گنت اداریے لکھ مارے۔‘
اگر قرارداد کی منظوری میں آدھے گھنٹے کی تاخیر ہوجاتی تو یہ قرارداد 24 کے بجائے 25 مارچ کو منظور ہوتی۔ کے کے عزیز اجلاس کی لمحہ بہ لمحہ کارروائی کو قلمبند کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس میں ذرا سا بھی شائبہ نہیں کہ قراردادِ لاہور 24 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی تھی۔‘
احمد سلیم شیخ کی کتاب ’انسائیکلو پیڈیا تحریکِ پاکستان‘ مطبوعہ 2011ء بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہے کہ قراردادِ لاہور 23 مارچ کے بجائے 24 مارچ کو منظور ہوئی تھی۔
احمد سلیم شیخ اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ، ’قرار دادِ لاہور 24 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی‘ تاہم وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ چونکہ قرارداد 23 مارچ کو پیش کی گئی تھی اس لیے یہ دن 23 مارچ کو منایا جاتا ہے۔
محمد الیاس اپنی کتاب ’جدوجہدِ پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ
’ابتدائی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ قرارداد مولانا ظفر علی خان پیش کریں گے مگر بعد میں قائدِ اعظم نے فیصلہ کیا کہ قرارداد بنگال کے وزیر اعظم اے کے فضل حق پیش کریں۔ 23 مارچ 1940ء کو یہ قرارداد پیش کی گئی۔ قرارداد کی حمایت میں تقریروں کا سلسلہ جاری تھا کہ نماز کا وقت آگیا اور اگلے دن تک اجلاس کو ملتوی کردیا گیا۔ 24 مارچ کو پھر اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس دن اجلاس میں سید ذاکر علی، ڈاکٹر محمد عالم، عبد الحمید خان، سید عبدالرؤف شاہ، اسماعیل ابراہیم چندریگر، نواب محمد اسماعیل، بیگم محمد علی، مولانا عبدالحمید بدایونی اور قاضی محمد عیسیٰ نے قرارداد کی حمایت میں تقاریر کیں، تاہم اس کے بعد مصنف داستان ادھوری چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ قرارداد کی منظوری کا کیا بنا۔
پڑھیے: قائدِ اعظم کی جائے پیدائش: اوریجنل یا چائنا؟
قارئین کے لیے یہ حقیقت بھی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ تحریک پاکستان میں سرگرم رہنے والے رہنماؤں نے بعدازاں جب قراردادِ لاہور کو قلمبند کیا تو وہ بھی اس مغالطے کا شکار رہے کہ قراردادِ لاہور 24 مارچ کے بجائے 23 مارچ کو منظور ہوئی۔ یہاں جی الانہ کی کتاب ’قائدِ اعظم: ایک قوم کی سرگزشت‘ کی ہی مثال لیجیے، جی الانہ معروف اسکالر اور قائدِ اعظم کی سوانح عمری لکھنے والے اہم مسلم لیگی رہنما تھے، وہ اپنی اس کتاب کے صفحے نمبر 385 پر لکھتے ہیں کہ،
’23 مارچ 1940ء کو لاہور میں اس قرارداد کی منظوری سے ہندو اور کانگرس دہل کر رہ گئے۔ انہیں نوشتہ دیوار نظر آرہا تھا اور انہیں یقین ہوگیا تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کو ’خودمختار ریاستوں‘ میں تقسیم کرنے کی وکالت کر رہی ہے۔ہندوؤں اور کانگریس کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی، ہندو اخباروں نے قرارداد کی مذمت میں ان گنت اداریے لکھ مارے۔‘
Last edited: