Mr. X
Thread Starter
⭐⭐⭐⭐⭐⭐



Charismatic
Expert
Popular
💖 ITD Lover 💖
The Gladiator
The Dark Knight
The Men in Black
- Joined
- Apr 25, 2018
- Local time
- 8:40 AM
- Threads
- 1,077
- Messages
- 2,228
- Reaction score
- 4,113
- Points
- 1,264
- Gold Coins
- 2,633.98

آدھے گھنٹے کے اندر اندر یہ خبر پورے فورم میں پھیل چکی تھی کہ صبیح بھائی نے موبائل فون خرید لیا ہے۔ جس جس نے یہ خبر سنی وہ صبیح بھائی کو مبارک باد دینے گریٹنگ سیکشن چلا آیا۔ فخر کے مارے صبیح بھائی کا سینہ غبارے کی طرح پھولا ہوا تھا۔ وہ کسی سیاسی لیڈر یا دانشور کی طرح ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ گردن ہلا ہلا کر اور لائک کا بٹن دبا دبا کرمبارک بادیں وصول کر رہے تھے۔
ہر کوئی ان سے مخصوص سوالات کر رہا تھا۔
"کتنے کا موبائل خریدا، کہاں سے خریدا، خریدا یا بس میں سے ملا ہے؟"


صبیح بھائی ہر ایک کو تفصیل کے ساتھ اپنی موبائل داستان سنا رہے تھے۔ کسی نے ان کا موبائل نمبر حاصل کر کے پورے فورم میں پھیلا دیا۔ اب صبیح بھائی کا موبائل فون ہر چند سیکنڈ کے بعد ایک مزاحیہ ٹون کے ساتھ بج اٹھتا تھا۔ ہر مس کال کے ساتھ صبیح بھائی کام کرتے کرتے زور سے چونک جاتے اور سامنے ہی میز پر رکھے ہوئے موبائل کو خوشی خوشی دیکھنے لگتے،
صبیح بھائی کے ساتھ ہلہ گلہ سیکشن میں عطاء رفیع صاحب بیٹھتے تھے۔ انھوں نے کہا: "کیا بات ہے صبیح بھائی! پہلے ہی دن آپ کا فون اتنا بج رہا ہے۔"
صبیح بھائی نے ناک پر سے پھسلتی ہوئی عینک درست کرتے ہوئے کہا: "یہ تو لیا ہی بجانے کے لیے ہے، لیکن پتا نہیں کس کس کے نمبر ہیں۔ جن کے نمبر میرے موبائل میں محفوظ ہیں وہ فون ہی نہیں کر رہے۔"
ان کی بات پر سیکشن کے بہت سے لوگ ہنس پڑے۔ صبیح بھائی کے موبائل فون پر مسلسل مس کالز آ رہی تھیں۔ ان کے لیے کام کرنا دشوار ہو گیا تھا۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ ان کے سیکشن کے لوگ ہی انھیں مس بیلز دے رہے ہیں۔ جیسے ہی صبیح بھائی موبائل فون کی طرف ہاتھ بڑھاتے، فون بند ہو جاتا۔ وہ جھنجلا کر رہ جاتے۔
چھٹی کے بعد صبیح بھائی گھر پہنچے۔ وہاں ان کے کچھ عزیز آئے ہوئے تھے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی صبیح بھائی کی ان لوگوں پر نظر پڑی۔ انھوں نے جھٹ اپنی جیب سے موئل فون نکالا اور بٹن دبا کر اسے یوں غور سے دیکھنے لگے جیسے کھجل سائیں نے انھیں کسی خاص مشن کے لیے میسج بھیجا ہو۔
ان کی بیگم نے برآمدے سے ہی چنگھاڑ کر کہا: "ارے کیا ہو گیا؟ ادھر ہی کیوں جام ہو گئے۔ ایسا کون سا اہم فون آ گیا کسی کمبخت کا؟"
صبیح بھائی تلملا کر بولے: "فون نہیں آیا ہے، میسج بھیجا ہے تمھارے بھائی نے۔"
بیگم نے اپنی ٹھوڑی پکڑتے ہوئے کہا: "آئے ہائے، میرے بھائی کے پاس تو یہ کم بخت موبائل ہی نہیں ہے۔ کیا اس نے تمھیں کیلکولیٹر سے میسج کر دیا؟"



صبیح بھائی نے بوکھلا کر مہمانوں کی طرف دیکھا، جو حیرت اسے انھیں دیکھ رہے تھے۔ صبیح بھائی وہاں نہیں رکے اور بند موبائل فون کان سے لگا کر تیز تیز آواز میں کچھ بولتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے، جیسے کسی سے بہت ہی اہم بات کر رہے ہوں۔
٭٭٭٭٭٭
ناعمہ وقار نے ان کی بیگم سے کہا: "بہن! یہ انھیں کیا ہو گیا ہے؟ انھوں نے تو سلام دعا بھی نہیں کی۔"
بیگم صاحبہ نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا: "انہیں موبائی لائی لانگ ہو گیا ہے۔ کل سے باؤلے ہو گئے ہیں۔ کم بخت موبائل فون کیا خریدا خود کو گورنر سمجھنے لگے ہیں۔ کل رات کو کھانا کھانا بھول گئے اور رات بھر موبائل میں لگے رہے۔ صبح ناشتے کے وقت موبائل بجا تو گرم گرم چائے کا کپ کان سے لگا لیا۔"
وہاں بیٹھی ہوئی ایک خاتون ثوبیہ نے ٹھوڑی پکڑتے ہوئے تشویش ناک لہجے میں کہا: "اے پروین! برا مت مانیو، مجھے تو لگتا ہے کہ اس پر کسی نے تعویذ کرا دیا ہے۔ میری مان تو اسے اختر سائیں ملنگ چکی تائی کے پاس لے جا۔ دو منٹ میں جھاڑو سے گندے اثرات اتار دے گا۔"
بیگم صاحبہ نے کہا: "اس جھاڑو سے ان کے گندے اثرات کہاں اتریں گے۔ جھاڑو سے مار کھانے کے تو وہ پہلے ہی عادی ہیں۔" پھر انھوں نے جلدی سے اپنے منہ پر یوں ہاتھ رکھ لیا، جیسے کوئی غلط بات کہہ دی ہو۔
آدھی رات کو سب گھر والے سو رہے تھے۔ مہمان اپنے کمرے میں تھے، اچانک ایک آواز سن کر بیگم صاحبہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں، انھوں نے خوف زدہ نظروں سے تاریک کمرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا۔ کچھ نظر نہیں آیا، لیکن وہ عجیب سی آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی۔ اتنے میں بچے بھی جاگ گئے۔ دونوں بڑے بچے تو مارے ڈر کے چادر اوڑھ کر لیٹ گئے، جب کہ چھوٹے بچے نے دریائی گھوڑے کی طرح منھ پھاڑ کر رونا شروع کر دیا۔ بیگم نے جلدی سے اٹھ کر لائٹ جلائی۔ روشنی ہوئی تو انھوں نے دیکھا کہ صبیح صاحب اپنے بستر پر نہیں تھے۔ ادھر ان کا کالا کلوٹا، بےڈھنگا سا بچہ جسے وہ پیار سے چندا کہتی ہیں، روئے جا رہا تھا۔ بیگم صاحبہ نے اس بے وقت کی راگنی پر آگے بڑھ کر اس کے کالے گلاب جامن جیسے گال پر ایک تھپڑ جڑ دیا اور ڈانٹتے ہوئے کہا: "چپ کر جا کم بخت! ورنہ دوں گی ایک اور تھپڑ۔"


تھپڑ کھا کر بچے کا باجا بند ہو گیا اور وہ بستر پر لیٹ کر سکون سے سو گیا، جیسے تھپڑ کے بجائے اس نے نیند کی گولی کھائی ہو۔ اب وہ عجیب سی آواز بند ہو گئی تھی۔ بیگم صاحبہ کمرے سے باہر نکلیں اور باورچی خانے سے بیلن نکال لیا۔ اس وقت مہمانوں کے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ لوگ بھی باہر نکل آئے۔ چندا کے باجے نے انھیں بھی جگا دیا تھا۔ ایک لڑکے نے پوچھا: "کیا ہوا باجی! یہ کیسا شور ہے؟"
بیگم صاحبہ نے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے دبی آواز میں کہا۔"میرا خیال ہے، کوئی کم بخت چور آگیا ہے۔ ابھی میں نے کچھ عجیب سی آوازیں سنی تھیں۔"
بوڑھی خاتون ثوبیہ بولیں: "ہائے اللہ! اب کیا ہو گا۔ کہیں وہ میرا پاندان نہ چرا لے۔"
ناعمہ وقار نے تنک کر کہا: "اماں! تمھارے پاندان میں کون سی اشرفیاں بھری ہوئی ہیں۔ دو تین بغیر لگے ہوئے پان اور کتھا، چونا ہی تو پڑا ہوگا۔" اس سے پہلےکہ اماں پٹاخے کی طرح پھٹ پڑتیں۔ وہ سب لوگ اچھل پڑے، کیوں کہ وہی عجیب سی آواز پھر سنائی دینے لگی تھی۔ اماں کے ساتھ ان کا بھی ایک چاند سا بیٹا تھا، جو پہلے والے چاند سے کسی طرح بھی کم نہ تھا۔ وہ کانپتے ہوئے بولا: "باجی! باجی" یہ تو مجھے اڑن طشتری کی آواز لگتی ہے۔ شاید خلائی مخلوق نے
Previous thread
Next thread