سادگی پر شاعری
سادگی زندگی گزارنے کے عمل میں اختیار کیا جانے والا ایک رویہ ہے ۔ جس کے تحت انسان زندگی کے فطری پن کو باقی رکھتا ہے اور اس کی غیر ضروری آسائشوں، رونقوں اور چکاچوند کا شکار نہیں ہوتا ۔ شعری اظہارمیں سادگی کے اس تصور کے علاوہ اس کی اور بھی کئی جہتیں ہیں ۔ یہ سادگی محبوب کی ایک صفت کے طور پر بھی آئی ہے کہ محبوب بڑے سے بڑا ظلم بڑی معصومیت اور سادگی کے ساتھ کر جاتا ہے اور خود سے بھی اس کا ذرا احساس نہیں ہوتا ہے ۔ سادگی کے اور بھی کئی پہلو ہیں ۔ہمارے اس انتخاب میں پڑھئے ۔
اللہ رے سادگی نہیں اتنی انہیں خبر
میت پہ آ کے پوچھتے ہیں ان کو کیا ہوا
حفیظ جالندھری
نگاہ آرزو آموز کا چرچا نہ ہو جائے
شرارت سادگی ہی میں کہیں رسوا نہ ہو جائے
انہیں احساس تمکیں ہو کہیں ایسا نہ ہو جائے
جو ہونا ہو ابھی اے جرأت رندانہ ہو جائے
بظاہر سادگی سے مسکرا کر دیکھنے والو
کوئی کم بخت ناواقف اگر دیوانہ ہو جائے
بہت ہی خوب شے ہے اختیاری شان خودداری
اگر معشوق بھی کچھ اور بے پروا نہ ہو جائے
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
الٰہی دل نوازی پھر کریں وہ مے فروش آنکھیں
الٰہی اتحاد شیشہ و پیمانہ ہو جائے
مری الفت تعجب ہو گئی توبہ معاذ اللہ
کہ منہ سے بھی نہ نکلے بات اور افسانہ ہو جائے
یہ تنہائی کا عالم چاند تاروں کی یہ خاموشی
امیر مینائی
جب سے بلبل تو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے
ہے جوانی خود جوانی کا سنگار
سادگی گہنہ ہے اس سن کے لیے
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہے ایک کمسن کے لیے
سب حسیں ہیں زاہدوں کو ناپسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لیے
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذن کے لیے