PakArt UrduLover
Thread Starter

in memoriam 1961-2020، May his soul rest in peace


Charismatic
Designer
Expert
Writer
Popular
ITD Observer
ITD Solo Person
ITD Fan Fictionest
ITD Well Wishir
ITD Intrinsic Person
Persistent Person
ITD Supporter
Top Threads Starter
- Joined
- May 9, 2018
- Local time
- 8:27 AM
- Threads
- 1,354
- Messages
- 7,658
- Reaction score
- 6,967
- Points
- 1,508
- Location
- Manchester U.K
- Gold Coins
- 124.79

محبت کی پیدائش / سعادت حسن منٹو
خالد:اگر محبت ہاکی یا فٹ بال میچوں میں کپ جیتنے ، تقریر کرنے اور امتحانوں میں پاس ہو جانے کی طرح آسان ہوتی تو کیا کہنے تھے۔۔۔ مجھے سب کچھ مل پاتا۔ سب کچھ (پھر سیٹی بجاتا ہے) نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں اس چھوٹے سے باغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرا رہی ہے پر میں خوش نہیں ہوں۔ میں بالکل خوش نہیں ہوں۔
حمیدہ
دھیمے لہجے میں) خالد صاحب!
(خالد خاموش رہتا ہے)
حمیدہ
ذرا زور سے)خالد صاحب!
خالد
چونک کر) کیا ہے؟کوئی مجھے بلا رہا ہے؟
حمیدہ:میں ہوں !۔۔۔ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔
خالد:اوہ!حمیدہ۔۔۔ کہو، یہ ضروری کام کیا ہے۔۔۔ میں یہاں یونہی لیٹے لیٹے اونگھنے لگ گیا تھا۔ کیا کسی کتاب کے بارے میں کچھ کہنا ہے؟۔۔۔ مگر تم نے مجھے اتنا قابل کیوں سمجھ رکھا ہے۔۔۔ فلسفے میں میں اتنا ہوشیار نہیں جتنی کہ تم ہو۔ عورتیں فطرتاً فلسفی ہوتی ہیں۔
حمیدہ:میں آپ سے فلسفے کے بارے میں گفتگو کرنے نہیں آئی۔ افلاطون اور ارسطو اس معاملے میں میری مدد نہیں کر سکتے جتنی آپ کر سکتے ہیں۔
خالد:میں حاضر ہوں۔
حمیدہ:میں بہت جرأت سے کام لے کر آپ کے پاس آئی ہوں۔ آپ یقین کیجئے کہ میں نے بہت بڑی جرأت کی ہے۔۔۔ بات یہ ہے۔۔۔ مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ اس میں شرم کی کونسی بات ہے۔۔۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ پرسوں رات میں نے اباجی کو امی جان سے یہ کہتے سنا کہ وہ آپ سے میری شادی کر رہے ہیں۔
خالد
خوش ہو کر) سچ مچ؟
حمیدہ:جی ہاں۔۔۔ میں نے یہ سنا ہے کہ بات پکی ہو گئی ہے۔۔۔ اور اس فائنل کے بعد ہم بیاہ دیئے جائیں گے۔
خالد
خوشی کے جذبات کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے) حد ہو گئی ہے۔۔۔ مجھے تو کسی نے بتایا ہی نہیں۔۔۔ یہ چپکے چپکے انھوں نے بڑا دلچسپ کھیل کھیلا۔۔۔ دراصل بات یوں ہوئی ہے کہ میں نے اپنی امی جان سے ایک دو مرتبہ۔۔۔ تمہاری تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ جو شخص حمیدہ جیسی۔۔۔ حمیدہ جیسی۔۔۔ حمیدہ جیسی۔۔۔ حمیدہ جیسی پیاری لڑکی کا شوہر بنے گا۔۔۔ وہ کس قدر خوش نصیب ہو گا۔ (ہنستا ہے)حد ہو گئی ہے۔۔۔ میں یہاں اسی فکر میں گھلا جا رہا تھا کہ تم کہیں کسی اور کی نہ ہوجاؤ (خوب ہنستا ہے)۔۔۔ دیکھو نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں۔۔۔ اس باغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرا رہی ہے۔۔۔ اور میں بھی خوش ہوں۔۔۔ کس قدر خوش (ہنستا ہے) حمیدہ اب تمہیں ہم سے پردہ کرنا چاہئے۔۔۔ ہم تمہارے ہونے والے شوہر ہیں۔
حمیدہ:مگر مجھے یہ شادی منظور نہیں۔!
خالد:شادی منظور نہیں۔۔۔ پھر تم نے یہ بات کیوں چھیڑی؟۔۔۔ میں تمہیں نا پسند ہوں کیا؟
حمیدہ:خالد صاحب!میں اس معاملے پر زیادہ گفتگو کرنا نہیں چاہتی۔ میں آپ سے صرف یہ کہنے آئی تھی کہ اگر ہماری شادی ہو گئی۔ تو یہ میری مرضی کے خلاف ہو گی۔ ہماری دونوں کی زندگی اگر ہمیشہ کے لئے تلخ ہو گئی تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ میں نے اپنے دل کی بات آپ سے چھپا کر نہیں رکھی، جو فرض میرے ماں باپ کو ادا کرنا چاہئے تھا۔ میں نے ادا کر دیا ہے آپ عقل مند ہیں۔ روشن خیال ہیں۔ اس لئے میں آپ کے پاس آئی۔ ورنہ یہ راز قبر تک میرے سینے میں محفوظ رہتا۔
خالد:یہ جھوٹ ہے میں تم سے محبت کرتا ہوں۔
حمیدہ:ہو گا۔ مگر میں آپ سے محبت نہیں کرتی۔
خالد:اس میں میرا کیا قصور ہے؟
حمیدہ: اور اس میں میرا کیا قصور ہے؟
خالد:حمیدہ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں جھوٹ نہیں بولا کرتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میرا دل تمہاری اور صرف تمہاری محبت سے بھرا ہے۔
حمیدہ:لیکن میرا دل بھی تو آپ کی محبت سے بھرا ہو۔۔۔ میرے اندر سے بھی تو یہ آواز پیدا ہو کہ حمیدہ آپ کو چاہتی ہے۔۔۔ میں بھی تو آپ سے جھوٹ نہیں کہہ رہی۔۔۔ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو آپ کی محبت اس وقت مجھ پرکیا اثر کر سکتی ہے جب میرا دل آپ کی محبت سے خالی ہو۔
خالد:ایک دیا دوسرے دیئے کو روشن کر سکتا ہے۔
حمیدہ:صرف اس صورت میں جب دوسرے دیئے میں تیل موجود ہو۔۔۔ یہاں میرا دل تو بالکل خشک ہے آپ کی محبت کیا کر سکے گی۔ میں نے آج تک آپ کو ان نگاہوں سے کبھی نہیں دیکھا جو محبت پیدا کر سکتی ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ کوئی خاص بات بھی تو نہیں ہوئی جس سے یہ جذبہ پیدا ہو سکے۔۔۔ لیکن میں آپ کے بارے میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ آپ اچھے نوجوان ہیں با اخلاق ہیں۔ کالج میں سب سے زیادہ ہوشیار طالب علم ہیں۔ آپ کی صحت آپ کی علمیت، آپ کی قابلیت قابل رشک ہے۔ آپ ہمیشہ میری مدد کرتے رہے ہیں۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ میرے دل میں آپ کی محبت ذرہ بھر بھی نہیں ہے۔۔۔ میر ا خیال ہو سکتا ہے کہ درست نہ ہو۔ پریہ تمام خوبیاں جو آپ کے اندر موجود ہیں ضروری نہیں کہ وہ کسی عورت کے دل میں آپ کی محبت پیدا کر دیں۔
خالد:تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ مجھے اس کا احساس ہے۔
حمیدہ:تو کیا میں امید رکھوں کہ آپ مجھے اس بے مرضی کی شادی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
خالد:مجھ سے جو کچھ ہو سکے گا۔ ضرور کروں گا۔
حمیدہ:تومیں جاتی ہوں۔۔۔ بہت بہت شکریہ!
(چند لمحات تک خاموشی طاری رہتی ہے۔۔۔ خالد درد ناک سروں میں سیٹی بجاتا ہے۔۔۔)
خالد
سسکیوں میں )نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں۔ اس چھوٹے سےباغچے کی پتی پتی خوشی سے تھرتھرا رہی ہے۔ میں خوش نہیں۔ بالکل خوش نہیں ہوں۔
(اسی روز شام کو خالد کے گھر میں)
ڈپٹی صاحب
خالد کا باپ۔ دروازے پر آہستہ سے دستک دے کر)بھئی میں ذرا اندر آ سکتا ہوں۔
خالد:آئیے آئیے۔ اباجی!
ڈپٹی صاحب:میں نے بہت مشکل سے تمہارے ساتھ چند باتیں کرنے کی فرصت نکالی۔ یوں کہو کہ ایسا اتفاق ہو گیا کہ تم بھی گھر میں موجود ہو اور مجھے بھی ایک، آدھ گھنٹے تک کوئی کام نہیں۔۔۔ بات یہ ہے کہ تمہاری ماں نے تمہاری شادی کی بات چیت پکی کر دی ہے لڑکی حمیدہ ہے جس کو تم اچھی طرح جانتے ہو۔ تمہاری کلاس میٹ ہے اور میں نے سنا ہے کہ تم دل ہی دل میں اس سے ذرا۔۔۔ محبت بھی کرتے ہو چلو اچھا ہوا۔۔۔ اب تمہیں اور کیا چاہئے۔۔۔ امتحان پاس کرو اور دلہن کولے آؤ۔
خالد:پر اباجی، میں نے تو یہ سن رکھا تھا کہ حمیدہ کی شادی مسٹر بشیر سے ہو گی جو پچھلے برس ولایت سے ڈاکٹر ی امتحان پاس کر کے آئے ہیں۔
ڈپٹی صاحب:شادی اس سے ہونے والی تھی مگر حمیدہ کے والدین کو جب معلوم ہوا کہ وہ شرابی اور آوارہ مزاج ہے تو انھوں نے یہ خیال موقوف کر دیا لیکن تمہیں ان باتوں سے کیا تعلق۔۔۔ حمیدہ تمہاری ہو رہی ہے۔ ہو رہی ہے کیا ہو چکی ہے۔
خالد:حمیدہ راضی ہے کیا؟
ڈپٹی صاحب:ارے راضی کیوں نہ ہو گی؟جب ڈپٹی ظہور احمد کے بیٹے خالد کی شادی کا سوال ہو، تو اس میں رضامندی کی ضرورت ہی کیا ہے۔
خالد:مجھے بنا رہے ہیں آپ؟
ڈپٹی صاحب:رہنے دواس قصے کو، مجھے اور بہت سے کام کرنا ہے۔ اچھا تومیں چلا۔۔۔ پر ایک اور بات بھی تو مجھے تم سے کرنا تھی۔ تمہاری ماں نے ایک لمبی چوڑی فہرست بنا کر دی تھی۔۔۔ ہاں یاد آیا۔۔۔ دیکھو بھئی نکاح کی رسم پرسوں یعنی اتوار کو ادا ہو گی۔ اس لئے کہ حمیدہ کا باپ حج کو جانے سے پہلے اس فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتا ہے۔۔۔ ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے ، ایسا ہی ہونا چاہئے اور جب تمہاری ماں کہہ دے تو پھر اس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں رہتی۔۔۔ میں نے ان لوگوں سے کہہ دیا ہے کہ ہم سب تیا رہیں۔ تمہیں جن لوگوں کوInvite کرنا ہو گا کر لینا۔ مجھے اس درد سری میں مبتلا نہ کرنا بھئی، میں بہت مصروف آدمی ہوں۔
خالد:بہت اچھا اباجی!
part 1
(خالد سیٹی بجا رہا ہے۔ سیٹی بجاتا بجاتا خاموش ہو جاتا ہے۔ پھر ہولے ہولے اپنے آپ سے کہتا ہے۔)خالد:اگر محبت ہاکی یا فٹ بال میچوں میں کپ جیتنے ، تقریر کرنے اور امتحانوں میں پاس ہو جانے کی طرح آسان ہوتی تو کیا کہنے تھے۔۔۔ مجھے سب کچھ مل پاتا۔ سب کچھ (پھر سیٹی بجاتا ہے) نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں اس چھوٹے سے باغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرا رہی ہے پر میں خوش نہیں ہوں۔ میں بالکل خوش نہیں ہوں۔
حمیدہ
(خالد خاموش رہتا ہے)
حمیدہ
خالد
حمیدہ:میں ہوں !۔۔۔ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔
خالد:اوہ!حمیدہ۔۔۔ کہو، یہ ضروری کام کیا ہے۔۔۔ میں یہاں یونہی لیٹے لیٹے اونگھنے لگ گیا تھا۔ کیا کسی کتاب کے بارے میں کچھ کہنا ہے؟۔۔۔ مگر تم نے مجھے اتنا قابل کیوں سمجھ رکھا ہے۔۔۔ فلسفے میں میں اتنا ہوشیار نہیں جتنی کہ تم ہو۔ عورتیں فطرتاً فلسفی ہوتی ہیں۔
حمیدہ:میں آپ سے فلسفے کے بارے میں گفتگو کرنے نہیں آئی۔ افلاطون اور ارسطو اس معاملے میں میری مدد نہیں کر سکتے جتنی آپ کر سکتے ہیں۔
خالد:میں حاضر ہوں۔
حمیدہ:میں بہت جرأت سے کام لے کر آپ کے پاس آئی ہوں۔ آپ یقین کیجئے کہ میں نے بہت بڑی جرأت کی ہے۔۔۔ بات یہ ہے۔۔۔ مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ اس میں شرم کی کونسی بات ہے۔۔۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ پرسوں رات میں نے اباجی کو امی جان سے یہ کہتے سنا کہ وہ آپ سے میری شادی کر رہے ہیں۔
خالد
حمیدہ:جی ہاں۔۔۔ میں نے یہ سنا ہے کہ بات پکی ہو گئی ہے۔۔۔ اور اس فائنل کے بعد ہم بیاہ دیئے جائیں گے۔
خالد
حمیدہ:مگر مجھے یہ شادی منظور نہیں۔!
خالد:شادی منظور نہیں۔۔۔ پھر تم نے یہ بات کیوں چھیڑی؟۔۔۔ میں تمہیں نا پسند ہوں کیا؟
حمیدہ:خالد صاحب!میں اس معاملے پر زیادہ گفتگو کرنا نہیں چاہتی۔ میں آپ سے صرف یہ کہنے آئی تھی کہ اگر ہماری شادی ہو گئی۔ تو یہ میری مرضی کے خلاف ہو گی۔ ہماری دونوں کی زندگی اگر ہمیشہ کے لئے تلخ ہو گئی تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ میں نے اپنے دل کی بات آپ سے چھپا کر نہیں رکھی، جو فرض میرے ماں باپ کو ادا کرنا چاہئے تھا۔ میں نے ادا کر دیا ہے آپ عقل مند ہیں۔ روشن خیال ہیں۔ اس لئے میں آپ کے پاس آئی۔ ورنہ یہ راز قبر تک میرے سینے میں محفوظ رہتا۔
خالد:یہ جھوٹ ہے میں تم سے محبت کرتا ہوں۔
حمیدہ:ہو گا۔ مگر میں آپ سے محبت نہیں کرتی۔
خالد:اس میں میرا کیا قصور ہے؟
حمیدہ: اور اس میں میرا کیا قصور ہے؟
خالد:حمیدہ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں جھوٹ نہیں بولا کرتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میرا دل تمہاری اور صرف تمہاری محبت سے بھرا ہے۔
حمیدہ:لیکن میرا دل بھی تو آپ کی محبت سے بھرا ہو۔۔۔ میرے اندر سے بھی تو یہ آواز پیدا ہو کہ حمیدہ آپ کو چاہتی ہے۔۔۔ میں بھی تو آپ سے جھوٹ نہیں کہہ رہی۔۔۔ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو آپ کی محبت اس وقت مجھ پرکیا اثر کر سکتی ہے جب میرا دل آپ کی محبت سے خالی ہو۔
خالد:ایک دیا دوسرے دیئے کو روشن کر سکتا ہے۔
حمیدہ:صرف اس صورت میں جب دوسرے دیئے میں تیل موجود ہو۔۔۔ یہاں میرا دل تو بالکل خشک ہے آپ کی محبت کیا کر سکے گی۔ میں نے آج تک آپ کو ان نگاہوں سے کبھی نہیں دیکھا جو محبت پیدا کر سکتی ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ کوئی خاص بات بھی تو نہیں ہوئی جس سے یہ جذبہ پیدا ہو سکے۔۔۔ لیکن میں آپ کے بارے میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ آپ اچھے نوجوان ہیں با اخلاق ہیں۔ کالج میں سب سے زیادہ ہوشیار طالب علم ہیں۔ آپ کی صحت آپ کی علمیت، آپ کی قابلیت قابل رشک ہے۔ آپ ہمیشہ میری مدد کرتے رہے ہیں۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ میرے دل میں آپ کی محبت ذرہ بھر بھی نہیں ہے۔۔۔ میر ا خیال ہو سکتا ہے کہ درست نہ ہو۔ پریہ تمام خوبیاں جو آپ کے اندر موجود ہیں ضروری نہیں کہ وہ کسی عورت کے دل میں آپ کی محبت پیدا کر دیں۔
خالد:تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ مجھے اس کا احساس ہے۔
حمیدہ:تو کیا میں امید رکھوں کہ آپ مجھے اس بے مرضی کی شادی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
خالد:مجھ سے جو کچھ ہو سکے گا۔ ضرور کروں گا۔
حمیدہ:تومیں جاتی ہوں۔۔۔ بہت بہت شکریہ!
(چند لمحات تک خاموشی طاری رہتی ہے۔۔۔ خالد درد ناک سروں میں سیٹی بجاتا ہے۔۔۔)
خالد
(اسی روز شام کو خالد کے گھر میں)
ڈپٹی صاحب
خالد:آئیے آئیے۔ اباجی!
ڈپٹی صاحب:میں نے بہت مشکل سے تمہارے ساتھ چند باتیں کرنے کی فرصت نکالی۔ یوں کہو کہ ایسا اتفاق ہو گیا کہ تم بھی گھر میں موجود ہو اور مجھے بھی ایک، آدھ گھنٹے تک کوئی کام نہیں۔۔۔ بات یہ ہے کہ تمہاری ماں نے تمہاری شادی کی بات چیت پکی کر دی ہے لڑکی حمیدہ ہے جس کو تم اچھی طرح جانتے ہو۔ تمہاری کلاس میٹ ہے اور میں نے سنا ہے کہ تم دل ہی دل میں اس سے ذرا۔۔۔ محبت بھی کرتے ہو چلو اچھا ہوا۔۔۔ اب تمہیں اور کیا چاہئے۔۔۔ امتحان پاس کرو اور دلہن کولے آؤ۔
خالد:پر اباجی، میں نے تو یہ سن رکھا تھا کہ حمیدہ کی شادی مسٹر بشیر سے ہو گی جو پچھلے برس ولایت سے ڈاکٹر ی امتحان پاس کر کے آئے ہیں۔
ڈپٹی صاحب:شادی اس سے ہونے والی تھی مگر حمیدہ کے والدین کو جب معلوم ہوا کہ وہ شرابی اور آوارہ مزاج ہے تو انھوں نے یہ خیال موقوف کر دیا لیکن تمہیں ان باتوں سے کیا تعلق۔۔۔ حمیدہ تمہاری ہو رہی ہے۔ ہو رہی ہے کیا ہو چکی ہے۔
خالد:حمیدہ راضی ہے کیا؟
ڈپٹی صاحب:ارے راضی کیوں نہ ہو گی؟جب ڈپٹی ظہور احمد کے بیٹے خالد کی شادی کا سوال ہو، تو اس میں رضامندی کی ضرورت ہی کیا ہے۔
خالد:مجھے بنا رہے ہیں آپ؟
ڈپٹی صاحب:رہنے دواس قصے کو، مجھے اور بہت سے کام کرنا ہے۔ اچھا تومیں چلا۔۔۔ پر ایک اور بات بھی تو مجھے تم سے کرنا تھی۔ تمہاری ماں نے ایک لمبی چوڑی فہرست بنا کر دی تھی۔۔۔ ہاں یاد آیا۔۔۔ دیکھو بھئی نکاح کی رسم پرسوں یعنی اتوار کو ادا ہو گی۔ اس لئے کہ حمیدہ کا باپ حج کو جانے سے پہلے اس فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتا ہے۔۔۔ ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے ، ایسا ہی ہونا چاہئے اور جب تمہاری ماں کہہ دے تو پھر اس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں رہتی۔۔۔ میں نے ان لوگوں سے کہہ دیا ہے کہ ہم سب تیا رہیں۔ تمہیں جن لوگوں کوInvite کرنا ہو گا کر لینا۔ مجھے اس درد سری میں مبتلا نہ کرنا بھئی، میں بہت مصروف آدمی ہوں۔
خالد:بہت اچھا اباجی!
Previous thread
Next thread