"بابا سائیں جان!! آپ نے میری شادی میں بھی شرکت نہیں کی ۔۔ آپ کیونکر کسی مرید کی شادی اٹینڈ نہیں کرتے؟"
شِیدے کن ٹُٹے نے شکوہ کیا
"بالک! اس کے پیچھے بھی ایک راز ہے"
کھجل سائیں نے رعب دار لہجے میں جواب دیا
"نہیں سائیں!! آج تو آپ کو وہ وجہ بتانی ہی پڑے گی ورنہ میں آپ سے روٹھ جاؤں گا"
شیدے نے اصرار کیا۔۔ جواباً کھجل سائیں نے آلتی پالتی مار کر یوگا کے انداز میں دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جمائے ایک لمبی سانس بھری اور گردن اکڑاتے ہوئے کہنے لگا
"گاؤں میں ایک دوست نے مجھے اپنی شادی پر مدعو کیا۔۔ میرا دوست اپنی بیگم کے ساتھ مسند پر براجمان تھا کہ گاؤں کے رسم و رواج کے مطابق پگڑیاں بدلنے کی رسم شروع ہوگئی۔۔۔ میرے دوست کا باپ کھڑا ہوا اور بلند آواز میں گویا ہوا
"میں ہوں لڑکے کا باپ۔۔۔ کہاں ہے لڑکی کا باپ؟؟سامنے آئے" تو قریب ہی بیٹھا ایک بزرگ اٹھ کھڑا ہوا جو کہ یقیناً لڑکی کا باپ تھا۔۔ اس کے بعد میرے دوست کے باپ نے اور دلہن کے باپ نے اپنی اپنی پگڑی اتاری اور ایک دوسرے کے سر پر رکھ دی۔۔
میرے دوست کا چچا کھڑا ہوا اور کہنے لگا "میں ہوں دولہے کا چچا، دلہن کا چاچا کہاں ہے؟ سامنے آئے" اس طرح دوست کے چچا نے دلہن کے چچا کے ساتھ پگڑی تبدیل کی۔۔ اس کے بعد دوست کا ماموں اٹھ کھڑا ہوا اس نے دلہن کے ماموں کے ساتھ پگڑی تبدیل کی۔۔ باری باری میرے دوست کی فیملی کے بڑے دلہن کے بڑوں کے ساتھ پگڑیاں تبدیل کرتے رہے۔۔ آخر پر میں بچ گیا۔۔ سب کی نظریں مجھ پر مرکوز تھیں۔۔ اب چونکہ دولہا میرا یار تھا۔۔ ہم ایک دوسرے کے بہترین دوست تھے اس لیے ضروری تھا کہ مجھے جو اتنی عزت سے نوازا گیا ہے میں بھی رسم میں حصہ لوں۔۔ چنانچہ میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور آواز بلند کی
"میں ہوں دولہے کا یار، کہاں ہے دلہن کا یار؟؟ سامنے آئے"
کھجل سائیں اتنی بات بتا کر خاموش ہوگیا
"باباجی پھر کیا ہوا؟"
شیدے نے متجسس ہوکر پوچھا۔۔
"ہونا کیا تھا بچہ!! بس اس کے بعد چراغوں میں روشنی نا رہی"
:/
:/ وہ دن جائے آج کا آئے۔۔ میں کبھی کسی کی شادی میں شریک نہیں ہوا"
شِیدا اٹھ کر باباجی کے کاندھے دبانے میں مشغول ہوگیا۔۔ یہ اس کا اظہارِ افسوس کا ایک انداز تھا
از- اے ایم
شِیدے کن ٹُٹے نے شکوہ کیا
"بالک! اس کے پیچھے بھی ایک راز ہے"
کھجل سائیں نے رعب دار لہجے میں جواب دیا
"نہیں سائیں!! آج تو آپ کو وہ وجہ بتانی ہی پڑے گی ورنہ میں آپ سے روٹھ جاؤں گا"
شیدے نے اصرار کیا۔۔ جواباً کھجل سائیں نے آلتی پالتی مار کر یوگا کے انداز میں دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جمائے ایک لمبی سانس بھری اور گردن اکڑاتے ہوئے کہنے لگا
"گاؤں میں ایک دوست نے مجھے اپنی شادی پر مدعو کیا۔۔ میرا دوست اپنی بیگم کے ساتھ مسند پر براجمان تھا کہ گاؤں کے رسم و رواج کے مطابق پگڑیاں بدلنے کی رسم شروع ہوگئی۔۔۔ میرے دوست کا باپ کھڑا ہوا اور بلند آواز میں گویا ہوا
"میں ہوں لڑکے کا باپ۔۔۔ کہاں ہے لڑکی کا باپ؟؟سامنے آئے" تو قریب ہی بیٹھا ایک بزرگ اٹھ کھڑا ہوا جو کہ یقیناً لڑکی کا باپ تھا۔۔ اس کے بعد میرے دوست کے باپ نے اور دلہن کے باپ نے اپنی اپنی پگڑی اتاری اور ایک دوسرے کے سر پر رکھ دی۔۔
میرے دوست کا چچا کھڑا ہوا اور کہنے لگا "میں ہوں دولہے کا چچا، دلہن کا چاچا کہاں ہے؟ سامنے آئے" اس طرح دوست کے چچا نے دلہن کے چچا کے ساتھ پگڑی تبدیل کی۔۔ اس کے بعد دوست کا ماموں اٹھ کھڑا ہوا اس نے دلہن کے ماموں کے ساتھ پگڑی تبدیل کی۔۔ باری باری میرے دوست کی فیملی کے بڑے دلہن کے بڑوں کے ساتھ پگڑیاں تبدیل کرتے رہے۔۔ آخر پر میں بچ گیا۔۔ سب کی نظریں مجھ پر مرکوز تھیں۔۔ اب چونکہ دولہا میرا یار تھا۔۔ ہم ایک دوسرے کے بہترین دوست تھے اس لیے ضروری تھا کہ مجھے جو اتنی عزت سے نوازا گیا ہے میں بھی رسم میں حصہ لوں۔۔ چنانچہ میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور آواز بلند کی
"میں ہوں دولہے کا یار، کہاں ہے دلہن کا یار؟؟ سامنے آئے"
کھجل سائیں اتنی بات بتا کر خاموش ہوگیا
"باباجی پھر کیا ہوا؟"
شیدے نے متجسس ہوکر پوچھا۔۔
"ہونا کیا تھا بچہ!! بس اس کے بعد چراغوں میں روشنی نا رہی"


شِیدا اٹھ کر باباجی کے کاندھے دبانے میں مشغول ہوگیا۔۔ یہ اس کا اظہارِ افسوس کا ایک انداز تھا
از- اے ایم
Previous thread
Next thread