PakArt UrduLover
Thread Starter
in memoriam 1961-2020، May his soul rest in peace



Charismatic
Designer
Expert
Writer
Popular
Persistent Person
ITD Supporter
ITD Observer
ITD Solo Person
ITD Fan Fictionest
ITD Well Wishir
ITD Intrinsic Person
- Joined
- May 9, 2018
- Local time
- 6:19 PM
- Threads
- 1,353
- Messages
- 7,658
- Reaction score
- 6,974
- Points
- 1,508
- Location
- Manchester U.K
- Gold Coins
- 124.01

اوکھا منڈا / منیرنیازی
ممتاز رفیق
پارٹ 1
وہ ایک شہرِ طلسم تھا۔ جس میں شاہ زادے نے، اپنے افسوں سے، ایک عمارتِ عالی شان قائم کر رکھی تھی۔ اِس عمارت کا مکیں، رہتے ہوئے، خود شاہ زادہ، ایک اساطیری حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ شہر میں اُس کے حوالے سے، عجب ناگوار کہانیاں گردش کرنے لگی تھیں۔ کوئی کہتا، وہ خود پسندی کے روگ میں مبتلا ہے، تو کوئی گمان کرتا کہ وہ خوف زدہ ہے۔ تو کوئی گرہ لگاتا کہ وہ اپنے ماضی میں دفن ہے، اور کوئی، دور کی کوڑی لاتا اور حکم لگاتا کہ وہ دنیائے خیال کا باشندہ ہے۔ حالانکہ اِن تمام افواہوں میں کوئی سچائی نہ تھی۔ بات محض اتنی تھی کہ شاہ زادہ، حسن کا شیدائی تھا اور ایسی خوبصورت دنیا میں زندگی گزارنے کا تمنائی، جیسے خود اُس کے خواب و خیال مجسم ہو گئے ہوں، اور یہ دنیا جس میں وہ زندگی کرنے پر مجبور تھا، اُس میں بدصورتی اور بد ہئیتی، اس کے چاروں اور، رقصاں تھی۔ شاہ زادے کے لیے یہ ایک نوع کی سزا تھی، جسے اُسے جھیلنا ہی تھا۔ اپنی اِس بپتا کو سہل کرنے کیلیے، اُس نے آئینہ اختیار کیا، اور اپنے عشق میں مبتلا ہو کر، زندگی کی ڈور کاٹنے لگا۔ممتاز رفیق
پارٹ 1
اِس مردِ خدا کی، شاہ زادگی کا معاملہ بھی عجب تھا۔ دراصل، اُسے اپنا شمار، اُس خلقتِ عام میں ہونا، ہرگز گوارہ نہ تھا، جو اُس کے اردگرد کی فضا کو، اپنے تنفس کی بُو سے، مکدّر کیے ہوئے تھی، لیکن اِس ماحول سے چھٹکارہ تو اِسی صورت میں ممکن تھا، اگر وہ اِن عامیوں سے دور، کسی بلند سنگھاسن پر، براجمان ہوتا۔ اِس شخص کی وجاہت، متاثر کن ڈیل ڈول اور شخصیت سے اظہار پاتے وقار نے مل جل کے، اُسے تیقّن کی اُس منزل پر پہنچا دیا۔ جہاں آدمی بلا جھجک، کوئی بھی فیصلہ صادر کر گزرتا ہے۔ سُو، منیر نیازی نے، شہزادگی اختیار کی اور کسی شاہ زادے کے سے طور و اطوار اختیار کر کے، اپنے گرد خوش بو کا حصار قائم کرنے کے جتن کرنے لگا۔ اِس کوشش میں اُس کی یادداشت سے، وہ چھوٹی سی لائبریری بھی محو ہو گئی۔ جو اُس نے کسبِ معاش کے لئے، منٹگمری شہر کی ایک تنگ گلی کی، مختصر سی دکان میں، کبھی قائم تھی۔
منیر نیازی نے، اپنے تئیں تو ایک نیا شخصی جاہ و جلال اختیار کر لیا تھا، لیکن اِس میں مسئلہ یہ تھا، کہ حیثیت کی تبدیلی، ہمیشہ سے دو طرفہ قبولیت کی متقاضی رہی ہے۔ جب کے یہاں تو، ایک ہمارا شہزادہ ہی، اپنی بات منوانے پر تُلا ہوا تھا۔ منیر نیازی کے اِس اصرار کے خلاف ایک خاموش ناپسندیدگی فضا میں ڈولنے لگی۔ جس نے شدّت اختیار کر کے، آخرِ کار انکار کا روپ دھار لیا۔ آدمی کا تنہا رہ جانا، اُس کے دن ہی بے رنگ نہیں کرتا، اُس کی راتیں بھی درہم برہم کر دیتا ہے، اور اگر سکون نہ ہو، تو نیند کہاں ؟ اور جب نیند کی دیوی بھٹک جائے،تو خواب بھی رستا بھول جاتے ہیں، اور ہمارے شاہ زادے کا کل اثاثہ تو بس، خواب ہی تھے۔ اُس نے جیسے تیسے، یہ کڑا وقت کاٹا اور آخر ناچار ہو کے، اُس طلسم کو کام میں لایا، جو اُس کی تنہائیوں نے اُسے تعلیم کیا تھا۔ یہ جو قصرِ با کمال ہم دیکھتے ہیں ۔ یہ اُن ہی اسماء ہوش رُبا کا ثمر ہے۔ اِس پُر شکوہ عمارت کا نظارہ، آپ پر ایک قسم کی ہیبت طاری کر دیتا ہے۔ اِس کے کشادہ اور بلند و بالا منقّش دروازے پر دستک دینے سے قبل، آپ کو بہت سا وقت، اپنے حواس و ہمّت اور ارادوں کو مجتمع کرنے میں صرف کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو کھٹکا رہتا ہے کہ کہیں، آپ کی نا وقت کی یہ در اندازی، ہواؤں سے برسر پیکار شاہ زادے کے اشتعال میں شدّت کا باعث نہ بن جائے اور ناگاہ آپ پر، بھتنے، بد روح یا مکروہ مخلوق ہونے کا گمان نہ کر لیا جائے۔ خواب نگر کا شاہ زادہ منیر نیازی، اپنی اقلیم میں، کسی ناپسندیدہ انسان، منظر، پیڑ، پرند یا پگڈنڈی تک کو جگہ دینے کا روادار نہیں تھا۔ اگر اُسے کسی چیز میں من چاہی خو ش نمائی نظر نہ آئے تو یا تو، اُسے حقارت سے رد کر دیتا ہے، یا خیال کی رنگ برنگی پنّیاں چپکا کے اُنھیں اپنے لیے قابلِ برداشت بنانے کی کوشش کرتا ہے۔اگر یہ ممکن نہ ہوتا، تو ایک چھوٹا سا خواب تشکیل کر کے اُس کی جگہ لا رکھتا ہے۔ اِس عمارت کی تیاری میں اُس نے اپنی کتنی ہی راتیں اور دن سیاہ کر ڈالے۔ اب یہی اُس کی پناہ گاہ تھی۔ جہاں وہ دنیا جہاں کی بدصورتی سے منہ موڑے خود اپنی نظارگی میں گم رہا کرتا، جب اِس مشغلے سے جی سَیر ہو جاتا، تو دنیائے خیال سے کسی کو طلب کر کے، کسی عَالمِ نو ایجاد کا قصّہ لے بیٹھتا اور اگر یہ نہیں تو اپنے کسی دور پار کے دشمن پر کونے میں آدم قد آئینے نصب تھے، جنھیں کچھ اِس ترکیب سے آویزاں کیا گیا تھا کہ وہ محض، حسن کو منعکس کیا کرتے۔ یہ عمارت دراصل منیر نیازی کے خوابوں کا جنگل تھا۔ جس میں ہر طرف دھنک ایسی رنگا رنگی تھی اور یہ آئینے وہ راتیں ، جن میں اُس کے خواب نمود پاتے۔ اِس جنگل میں ایسا لگتا تھا، جیسے بہار نے دوام حاصل کر لیا ہو۔ یہاں کے چرند پرند کی خوش رنگی اور آوازیں، حسن اور نغمے تخلیق کیا کرتے، اور پائیں باغ کی مہک، منیر نیازی کے مشامِ جاں کو معطر رکھتی۔ اُس باغ کی ہفت رنگ بیلوں سے لٹکتے انگوروں کے خوشے، کہ جن کا ہر دانہ، جیسے آبِ آسودہ کا ایک جام جہاں خیز تھا۔جنھیں محض آنکھوں میں بسا کے ہی ہمارے شاہ زادے کے قدم لڑکھڑانے لگتے اور آنکھوں میں گلابی اُتر آتی، اور عمارت کے اَن گنت کمرے، جن کے شمار کرنے میں آدمی کو ہندسے کی عاجزی باور آئے، اور کہ جن میں سے ہر ایک کی سجاوٹ دل فریب اور منفرد، اور اِس سامانِ آرام و عیش میں حسن و نزاکت کا مرقّع دوشیزۂ فتنہ خیز، جس کی محض ایک جھلک، آدمی کو دیوانہ بنا دے اور لطف یہ کے ہر کمرے میں ایک سے بڑھ کے ایک پُر کشش اور دل آرام اور جاں سوز حسینائیں، اپنی اپنی آگ میں دھکی ہوئیں ، کہ انھیں شاہ زادے کی قربت فراغت سے نصیب نہیں ۔ یہاں تو وہی، ایک انار سو بیمار کا معاملہ ہے، اگر وہ اُن میں سے کسی ایک سے ملاقات کی فرصت پاتا بھی ہے تو بس گھڑی بھر کی، اور یہ لمحۂ اختلاط اُس دکھیاری کے آتشِ شوق کو اور سوا کر جاتا ہے۔ اِدھر منیر نیازی ہے کہ اپنے لفظ و خیال کا پٹارا حواس پر بار کیے۔ اپنی زندگی کی تلخیوں اور ناکامیوں اور نا آسودگیوں سے آنکھیں چُرائے، رستا بتانے والے ستارے کی رہ نمائی میں، ماہِ منیر کا تصور کیے سفر کی رات کاٹتا جاتا ہے۔ وہ خوب آگاہ ہے کہ کچھ کوس پرے اُس بے وفا کا شہر ہے جو اُس کی راہ کی دیوار بنے گا۔
لیکن یوں آنکھیں چرا لینے سے حقیقت کہاں بدلتی ہے۔ ہر یکم کو ایک منحوس دستک اُس کے تمام کئے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے، اور اُسے کچھ نہیں سوجھتا کہ اِس بار کچھ دن کی مہلت کے لیے مالکِ مکان کو کیوں کر آمادہ کیا جائے۔ منیر نیازی، مشاعروں میں خواہ کتنا ہی تہلکہ مچاتا ہو۔ ادب دوست اُس کے اشعار پر کتنا ہی سرکیوں نہ دھُنتے ہوں۔ مگر علاج کی غرض سے معالج تک پہنچنے کے لیے تو جیب کا بھاری ہونا از بس ضروری ہوتا ہے اور مشاعرے بازی سے کس شاعر نے اتنی چاندی کمائی، کہ اُسے اتنی فراغت نصیب ہو کہ اُس کا چولہا بھی روشن رہے اور اُس کے وابستگان کی دوا دارو بھی سہولت سے چلتی رہے اور وہ ملبوساتی معاملات و مشکلات سے بھی چنداں پریشاں نہ ہوتا ہو اور اس کی نسلِ آئندہ آبرو مندی سے، علم سے بھی آراستہ ہو رہی ہو۔یہ تو وہ چند ضرورتیں ہیں، جن سے آدمی کا ہر پَل کا واسطہ ہے۔
اور منیر نیازی جیسا خواب زدہ! اُس کے مطالبات تو اِس سے کہیں سوا ہوں گے۔ سب سے بڑھ کے بنتِ انگور ہے کہ اگر وہ میسر نہ ہو تو خواب کیسے تشکیل پائیں، شام کیسے مہکے؟ تو اب، اگر منیر نیازی خواب نہ دیکھے تو کیا مر جائے؟ سُو وہ خواب دیکھتا ہے اور خوب دیکھتا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اُس کی زندگی ایک مسلسل خواب ہے اور اپنے خوابوں میں ہمارے شاہ زادے کو جو آسودگی اور اطمینان اور تن آسانی حاصل ہے، یہ دراصل اُس کے اپنے تخیل کی زرخیزی ہے۔ مگر اتنا بھی کسی کو کب مرغوب ہوا۔ ہمارا شہزادہ اچھا بھلا، اپنی خوابوں کی نگری میں مست و مگن تھا کہ میلی نگاہوں کا ہدف ٹھہرا، اور وہ عمارت بھی زمیں بوس ہوئی، جہاں اِس جنم جلے نے پناہ لے رکھی تھی۔
جب اُس نے چھ رنگین دروازوں والی اِس عمارت کو خیرباد کہا اور اپنی دراز قامت اور سرخ و سفید رنگت اور خوب رُوئی لیے، لباسِ عالی شان زیب تن کیے، پھرتا پھراتا مال روڈ کی پاک ٹی ہاؤس کی دروازے پر آیا تو بدصورتی اور بلاؤں اور بھتنوں اور پچھل پیریوں کا ایک انبوہ کثیر وہاں موجود تھا۔ پاک ٹی ہاؤس میں ہفتہ وار تنقیدی نشست میں پوری مستعدی سے جُگت بازی جاری تھی۔ میں نے یہیں منیر نیازی کو پہلی بار دیکھا۔ چوڑے ماتھے پر مٹی مٹی سی سلوٹوں کا جال اور ایک چمک، جو اُس کی ظفر مندی پر دلیل تھی، سلیقے سے کاڑھے گئے مہین گھنے بال اور سرور کی بوجھ سی مندی مندی درمیانی آنکھیں، جن میں مستی تیر رہی تھی، اور بھاری پپوٹے، گویا وہ صبح و شام غرقِ مئے ناب رہنے کی عادی تھی، اور ننھی منّی سی ناک، جس کی نتھنے خاصی کشادگی رکھتے تھے اور مناسب سا دہانہ اور پتلی پتلی ہونٹوں سی جھانکتے، زردی مائل دانتوں کی آزاد صفا چٹ دمکتا چہرہ، اور لفظوں کا ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہونا، اور سانس کی ساتھ فضا میں بکھرتی بنتِ انگور کی ناگوار سی بو، اور تندرست و توانا جسم، اور لمبے چوڑے ہاتھ پاؤں، اور بدن پر کڑھا ہوا بوسکی کا کُرتا، اور لٹّھے کی چٹک مٹک کرتی شلوار، اور جگ مگ کرتے کھُسّے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔
Previous thread
Next thread