
تجھے معلوم ہے سب کچھ
تجھے ہے سب پتہ ، سائیاں
خبرکیا دوں تجھے اپنی؟
ہے تجھ سے کیا چُھپا، سائیاں
چلا ہوں کیسے رستے پر
مسلسل اک سفر میں ہوں
بھٹک کر میں ، کہاں پُہنچا
کہاں سے تھا چلا ، سائیاں
بڑے طوفان بھی جھیلے
نکل آیا بھنور سے بھی
مگر ساحل پہ جا ڈ وبا
نہیں کیا جانتا ، سائیاں ؟
کبھِی اندر ہے اُٹھتا شور
خاموشی ہے کبھِی گہری
کبھِی حیران ، کبھِی گُم سُم
ہے کیا یہ ماجرا ، سائیاں
معمہ ہے یہ پیچیدہ
یہ ہستی ۔ اک پہیلی ہے
بڑی ناقص سمجھ میری
مجھے سمجھا ، زرا سائیاں
وہ ترکِ آرزو کرکے
کنارہ کرکے دنیا سے
عجب سی بے خودی میں ہوں
میں تیرا ہوگیا، سائیاں
Previous thread
Next thread