یہ لیں انکے مزید شعر آپکی نذر
مزید نتائج "باصر کاظمی
تھا جو کبھی اک شوق فضول
اب ہے وہی اپنا معمول
اب دل کو سمجھائے کون
بات اگرچہ ہے معقول
باصرؔ تمہیں یہاں کا ابھی تجربہ نہیں
بیمار ہو؟ پڑے رہو، مر بھی گئے تو کیا
دور سایا سا ہے کیا پھولوں میں
چھپتی پھرتی ہے صبا پھولوں میں
تجھ کو دیکھ رہا ہوں میں
اور بھلا کیا چاہوں میں
کچھ تو حساس ہم زیادہ ہیں
کچھ وہ برہم زیادہ ہوتا ہے
بادل ہے اور پھول کھلے ہیں سبھی طرف
کہتا ہے دل کہ آج نکل جا کسی طرف
دل میں ہر چند آرزو تھی بہت
کام تھوڑا تھا گفتگو تھی بہت
جن دنوں غم زیادہ ہوتا ہے
آنکھ میں نم زیادہ ہوتا ہے
گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ
بڑھ گئی تجھ سے مل کے تنہائی
روح جویائے ہم سبو تھی بہت
ختم ہوئیں ساری باتیں
اچھا اب چلتا ہوں میں
خط میں کیا کیا لکھوں یاد آتی ہے ہر بات پہ بات
یہی بہتر کہ اٹھا رکھوں ملاقات پہ بات
ہزار کہتا رہا میں کہ یار ایک منٹ
کیا نہ اس نے مرا انتظار ایک منٹ
کر لیا دن میں کام آٹھ سے پانچ
اب چلے دور جام آٹھ سے پانچ
دل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو
پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو
دل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو
پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو
جب بھی ملے ہم ان سے انہوں نے یہی کہا
بس آج آنے والے تھے ہم آپ کی طرف
دل میں ہر چند آرزو تھی بہت
کام تھوڑا تھا گفتگو تھی بہت
جن دنوں غم زیادہ ہوتا ہے
آنکھ میں نم زیادہ ہوتا ہے
تھا جو کبھی اک شوق فضول
اب ہے وہی اپنا معمول
گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ
بڑھ گئی تجھ سے مل کے تنہائی
روح جویائے ہم سبو تھی بہت
ختم ہوئیں ساری باتیں
اچھا اب چلتا ہوں میں
تو جب سامنے ہوتا ہے
اور کہیں ہوتا ہوں میں
خط میں کیا کیا لکھوں یاد آتی ہے ہر بات پہ بات
یہی بہتر کہ اٹھا رکھوں ملاقات پہ بات
ہزار کہتا رہا میں کہ یار ایک منٹ
کیا نہ اس نے مرا انتظار ایک منٹ
کر لیا دن میں کام آٹھ سے پانچ
اب چلے دور جام آٹھ سے پانچ
دل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو
پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو
دل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو
پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو
جب بھی ملے ہم ان سے انہوں نے یہی کہا
بس آج آنے والے تھے ہم آپ کی طرف
رک گیا ہاتھ ترا کیوں باصرؔ
کوئی کانٹا تو نہ تھا پھولوں میں
ہر چند میرے حال سے وہ بے خبر نہیں
لیکن وہ بے کلی جو ادھر ہے ادھر نہیں
قرار پاتے ہیں آخر ہم اپنی اپنی جگہ
زیادہ رہ نہیں سکتا کوئی کسی کی جگہ
چمکی تھی ایک برق سی پھولوں کے آس پاس
پھر کیا ہوا چمن میں مجھے کچھ خبر نہیں
اپنی باتوں کے زمانے تو ہوا برد ہوئے
اب کیا کرتے ہیں ہم صورت حالات پہ بات
ہوتے ہیں جو سب کے وہ کسی کے نہیں ہوتے
اوروں کے تو کیا ہوں گے وہ اپنے نہیں ہوتے
باصرؔ تمہیں یہاں کا ابھی تجربہ نہیں
بیمار ہو؟ پڑے رہو، مر بھی گئے تو کیا
ہم جیسے تیغ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا
کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سر بھی گئے تو کیا