PakArt UrduLover
Thread Starter

in memoriam 1961-2020، May his soul rest in peace


Charismatic
Designer
Expert
Writer
Popular
ITD Observer
ITD Solo Person
ITD Fan Fictionest
ITD Well Wishir
ITD Intrinsic Person
Persistent Person
ITD Supporter
Top Threads Starter
- Joined
- May 9, 2018
- Local time
- 10:03 AM
- Threads
- 1,354
- Messages
- 7,658
- Reaction score
- 6,966
- Points
- 1,508
- Location
- Manchester U.K
- Gold Coins
- 120.39


انسانی معاشرے میں عورت کا کردار
عورت اور معاشرے میں اس کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کا موضوع قدیم ایام سے ہی مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں زیر بحث رہا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ دنیا میں انسانی زندگی کا دار و مدار جتنا مردوں پر ہے اتنا ہے عورتوں پر بھی ہے جبکہ فطری طور پر عورتیں خلقت کے انتہائی اہم امور سنبھال رہی ہیں۔ خلقت کے بنیادی امور جیسے عمل پیدائش اور تربیت اولاد عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔ معلوم ہوا کھ عورتوں کا مسئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور قدیم زمانے سے ہی معاشروں میں مفکرین کی سطح پر اسی طرح مخلتف قوموں کی رسوم و روایات اور عادات و اطوار میں اس پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔
عورت کے سلسلے میں منطقی نقطہ نظر
عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کھ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیا ہے؟ عورت کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جو بلند انسانوں کی پرورش کرکے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہوگا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیسی ہونا چاہئے۔ عورت کو خاندان اور کنبے کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے، ویسے کنبہ تو مرد اور عورت دونوں سے مل کے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں لیکن گھر کی فضا کی طمانیت اور آشیانے کا چین و سکون عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔ عورت کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تب معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح کمال کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟
صنف نسواں پر تاریخی ظلم
پوری تاریخ میں مختلف معاشروں میں عورتوں کے طبقے پر ظلم ہوا ہے۔ یہ انسان کی جہالت کا نتیجہ ہے۔ جاہل انسان کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ اگر اس کے سر پر کوئی سوار نہیں ہے اور کوئی طاقت اس کی نگرانی نہیں کر رہی ہے، خواہ یہ نظارت انسان کے اندر سے ہو جس کا اتفاق بہت کم ہی ہوتا ہے یعنی قوی جذبہ ایمانی، اور خواہ باہر سے ہو یعنی قانون، اگر قانون کی تلوار سر پر لٹکتی نہ رہے تو اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ طاقتور، کمزور کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتا ہے۔
حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پوری تاریخ میں ہمیشہ عورت ظلم کی چکی میں پسی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ عورت کی قدر و منزلت اور مقام و اہمیت کو نہیں سمجھا گیا۔ عورت کو اس کی شان و شوکت حاصل ہونا چاہئے، عورت ہونے کی وجہ سے اس پر کوئی زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ بہت ہی بری چیز ہے۔ خواہ وہ زیادتی ہو جو عورت پر کی جاتی ہے اور اسے زیادتی کہا بھی جاتا ہے اور خواہ وہ زیادتی ہو کھ جسے سرے سے زیادتی سمجھا ہی نہیں جاتا جبکہ فی الواقع وہ ظلم ہے، زیادتی ہے۔ مثلا یہی بننا سنورنا، واہیات میک اپ اور اسے استعمال کی چیز بنا دینا۔ یہ عورت پر بہت بڑا ظلم اور سراسر زیادتی ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ عورت کے حق میں سب سے بڑی نا انصافی ہے کیونکہ یہ چیز اسے ارتقاء اور کمال کے تمام اہداف اور امنگوں سے غافل اور منحرف کرکے انتہائی بے وقعت اور گھٹیا چیزوں میں مشغول کر دیتی ہے۔
دنیا میں عورت کا مسئلہ
انسان نے اپنے تمام تر دعوؤں کے باجود، اپنی تمام تر پر خلوص اور ہمدردانہ مساعی کے باوجود، عورت کے سلسلے میں انجام دئے جانے والے علمی و ثقافتی کاموں کے باوجود ہنوز دونوں صنفوں بالخصوص صنف نازک کے بارے میں کوئی صحیح راستہ منتخب اور طے کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔
دوسرے لفظوں میں، زیادہ روی، کجروی اور غلط نتائج نکالنے اور پھر اسی بنا پر زیادتی، نا انصافی، ذہنی امراض، خاندان سے متعلق مسائل، دونوں صنفوں کے روابط اور میل ملاپ سے متعلق مشکلات آج بھی انسانی معاشرے میں لا ینحل باقی ہیں۔ یعنی جس انسان نے مادی شعبوں میں، فلکیات کے میدان میں، سمندروں کی گہرائیوں میں اتر کر بے شمار دریافتیں کیں اور جو نفسیات کی مو شگافی اور سماجی و معاشی امور میں باریک بینی کا دم بھرتا ہے، اور حقیقت میں بھی بہت سے میدانوں میں اس نے ترقی کی ہے، اس (عورت کے) مسئلے میں ناکام رہا ہے۔
عورت کے سماجی وقار میں حجاب کا کردار
مکتب اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب اور حد بندی قائم کی گئی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کی دنیا مردوں کی دنیا سے بالکل جدا اور مختلف ہے۔ نہیں عورتیں اور مرد معاشرے میں اور کام کی جگہوں پر ایک ساتھ ہوتے ہیں ہر جگہ ان کو ایک دوسرے سے کام پڑتے ہیں۔ سماجی مسائل کو مل جل کر حل کرتے ہیں، جنگ جیسے مسئلے کو بھی باہمی تعاون و شراکت کے ساتھ کنٹرول کرتے ہیں اور ایسا انہوں نے کیا بھی ہے، کنبے کو مل جل کر چلاتے ہیں اور بچوں کی پرورش کرتے ہیں لیکن گھر اور خاندان کے باہر اس حد بندی اور حجاب کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ یہ اسلامی طرز زندگی کا بنیادی نکتہ ہے۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہی فحاشی پھیلے گی جس میں آج مغرب مبتلا ہے۔ اگر اس نکتے کا خیال نہ رکھا جائے تو عورت اقدار کی سمت اپنی پیش قدمی کو جو آج ایران میں نظر آ رہی ہے، جاری نہیں رکھ سکے گی۔
حجاب کا مطلب عورت کو سب سے الگ تھلگ کر دینا نہیں ہے۔ اگر حجاب کے سلسلے میں کسی کا یہ نظریہ اور تصور ہے تو یہ سراسر غلط نظریہ ہے۔ حجاب تو در حقیقت معاشرے میں مرد اور عورت کو ضرورت سے زیادہ اختلاط سے روکنا ہے۔ ضرورت سے زیادہ قربت معاشرے، مرد اور عورت دونوں بالخصوص عورت کے لئے تباہ کن نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ حجاب کو ملحوظ رکھنے سے عورت کو اپنے اعلی روحانی مقام پر پہنچنے میں مدد ملتی ہے اور وہ سر راہ موجود نازک موڑ پر لغزش سے محفوظ رہتی ہے۔
عورتوں کے دفاع کے سلسلے میں کیا جانے والا ہر اقدام بنیادی طور پر عورت کی عفت و پاکیزگی کی حفاظت پر مرکوز ہونا چاہئے۔ عورت کی عفت و پاکیزگی فی الواقع دوسروں کی نظر میں حتی خود شہوانی خواہشات میں غرق انسانوں کی نظر میں عورت کا احترام اور وقار قائم کرتی ہے۔ اسلام عورت کی عفت و پاکدامنی پر خاص تاکید کرتا ہے۔ البتہ مردوں کی پاکدامنی بھی ضروری چیز ہے۔ عفت صرف عورتوں سے مخصوص نہیں ہے، مردوں میں بھی پاکدامنی ہونی چاہئے۔
جہاں عورتوں کو حجاب سے محروم کر دیا جاتا ہے، جہاں عورت کو عریانیت اور برہنگی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے وہاں سب سے پہلے تو خود عورت کی سلامتی اور اس کا تحفظ اور دوسرے مرحلے میں مردوں اور نوجوانوں کی سلامتی خطرات کی زد پر آ جاتی ہے۔ معاشرے اور ماحول کو محفوظ اور صحتمند رکھنے کے لئے اور ایسی فضا قائم کرنے کے لئے اسلام نے حجاب کا اہتمام کیا ہے جس میں عورت بھی معاشرے میں اپنی سرگرمیاں انجام دے سکے اور مرد بھی اپنے فرائض سے عہدہ بر آ ہو سکے۔
عورتوں کی ذمہ داریاں اور کردار
اسلامی معاشرے میں مرد و زن کے لئے میدان کھلا ہوا ہے۔ اس کا ثبوت اور دلیل وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو اس سلسلے میں موجود ہیں اور وہ اسلامی احکامات ہیں جو مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں طور پر سماجی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ تو پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ " من اصبح و لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم" ( جو شخص شب و روز گزارے اور مسلمانوں کے امور کی فکر میں نہ رہے وہ مسلمان نہیں ہے) یہ صرف مردوں سے مخصوص نہیں ہے، عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلامی کے معاملات بلکہ پوری دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کے سلسلے میں اپنے فریضے کا احساس کریں اور اس کے لئے اقدام کریں، کیونکہ یہ اسلامی فریضہ ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی، جو بچپن میں اور مدینہ منورہ کی جانب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے بعد مدینے میں اپنے والد کو پیش آنے والے تمام معاملات میں، اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے، ایک نمونہ ہے جو اسلامی نظام میں عورت کے کردار اور فرائض کو ظاہر کرتا ہے۔ سورہ احزاب کی ایک آيت کہتی ہے کہ اسلام ہو، ایمان ہو، قنوت ہو، خشوع و خضوع ہو، صدقہ دینا ہو، روزہ رکھنا ہو، صبر و استقامت ہو، عزت و ناموس کی حفاظت ہو یا ذکر خدا ہو، ان چیزوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ معاشرے میں عورتوں کی وہ سرگرمیاں بالکل جائز، پسندیدہ اور مباح و بلا اشکال ہیں جو اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے انجام دی جائيں۔ جب معاشرے میں مرد اور عورتیں دونوں ہی تعلیم حاصل کریں گے تو تعلیم یافتہ افراد کی تعداد اس دور کے مقابلے میں دگنی ہوگی جس میں تعلیمی سرگرمیاں صرف مردوں سے مخصوص ہوکر رہ جائیں۔ اگر معاشرے میں عورتیں تدریس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوں گی تو معاشرے میں اساتذہ کی تعداد اس دور کی بنسبت دگنی ہوگی جس میں یہ فریضہ صرف مردوں تک محدود ہو۔ تعمیراتی سرگرمیوں، اقتصادی سرگرمیوں، منصوبہ بندی، فکری عمل، ملکی امور، شہر، گاؤں، گروہی امور اور ذاتی مسائل اور خاندانی معاملات میں عورت و مرد کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے فرائض ہیں جن سے ہر ایک کو عہدہ بر آ ہونا چاہئے۔
عورتوں کی سماجی سرگرمیوں کی بنیاد
کوئی بھی سماجی کام اسی وقت صحیح سمت میں آگے بڑھ سکتا اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے، جب غور و فکر، عقل و خرد، تشخیص و توجہ، مصلحت اندیشی و بار آوری اور صحیح و منطقی بنیادوں پر استوار ہو۔ عورتوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے انجام دئے جانے والے ہر عمل میں اس چیز کو ملحوظ رکھنا چاہئے یعنی ہر حرکت دانشمندانہ سوچ پر مبنی ہو اور حقائق، عورت کے مزاج و فطرت سے آشنائی، مرد کے رجحان و رغبت سے آگاہی، عورتوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے واقفیت، مردوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے روشناسی اور دونوں کی مشترکہ باتوں اور خصوصیات کی معلومات کے ساتھ انجام دی جائے، غیروں سے مرعوب ہوکر اور اندھی تقلید کی بنیاد پر انجام نہیں دی جانی چاہئے۔ اگر یہ حرکت غیروں سے مرعوب ہوکر، اندھے فیصلے اور اندھی تقلید کی بنیاد پر آنکھیں بند کرکے انجام دی گئی تو یقینا ضرررساں ثابت ہوگی۔
Next thread