- Joined
- Apr 25, 2018
- Local time
- 6:30 AM
- Threads
- 208
- Messages
- 595
- Reaction score
- 974
- Points
- 460
- Gold Coins
- 428.55

ہاہا،ہی ہی اور ہوہو
اس میں کوئی شک نہیں کہ ادیبوں کی ایک جماعت اسے بغیر تذکیر اور تانیث کی تخصیص کے لکھتے ہیں چنانچہ
تماشا میرے آگے میں مذکور ہے
امریکی "ہی ہی" کر کے ہنسنے لگا اس نے ایک سگریٹ بخش دیا پتا نہیں وہ قرض تھا یا امداد
اسی طرح انیس مراثی کا شعر ہے
گھبرا کے بولے شاہ کہ "ہا ہا" قسم نہ کھا
رستا ہے یاں سے رات بسے کا نجف کو جا
لیکن مرزا اظفری صاحب کے اس شعر کے بعد لگتا ہے کہ اس میں تذکیر اور تانیث کی تخصیص ہے شعر ملاحظہ کیجیے
لقے دو چار ساتھ جاتے تھے
کیسا کل رات "ہی ہی"" ہاہا" تھا
لقے (لقی) دو آدمیوں (مرد اور عورت) کے ملنے کی جگہ کو بھی کہاجاتاہے اور مطلق ملاقات کی جگہ بھی کہاجاتا ہے
اظفری صاحب کہہ رہے ہیں کہ ملاقات کی جگہ دو چار مل کر جایا کرتے تھے لیکن کل کچھ اور معاملہ تھا کیوں کہ کل" ہی ہی" (ہنسنے والی) تھی اور "ہا ہا"(ہنسنے والا) تھا ۔دوم مصرعے میں" تھی" کو محذوف مانا گیا
اس پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اظفری صاحب نے "ہاہا" کو مذکر ضرورت شعری کی وجہ سے لکھا ہے
کیوں کہ قافیہ "ہا" کا ہے اس کا جواب اور "ہاہا " سے تذکیر کی طرف اشارے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اول مصرعے میں "لقے"کا لفظ بتارہاہے کہ یہاں "ہی ہی " اور "ہا ہا" سے تذکیر اور تانیث کی طرف اشارہ مراد ہے۔
دوسری دلیل "ہاہا"سے تذکیر کی طرف اشارے پر "ہا ہا"کے بعد مذکر حرف "تھا"کا ذکر ہے ۔کیوں کہ "ہاہا"بحیثیت لفظ مؤنث ہے
اسی طرح سنجوگ میں مذکور ہے
خیال نہ آیا کسی بات کا اور دل نہ پسیجا اسی شوہر کا جس کو دن بھر ہاہا"( ہنسنا)" ہوہو"(ہنسنے والوں کے ساتھ ہنسنا ) اور رات بھر ہی ہی(ہنسنے والی بیوی کے ساتھ ) "ہاہا"( ہنسنا) کے سوا کوئی کام نہ تھا
اس مختصر سی بحث کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بعض ادیبوں نے "ہاہا" سے مذکر"ہی ہی " سے مؤنث اور "ہو ہو" سے مطلق جمع یعنی مذکر اور مؤنث کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اس لیے مرد احباب فورم پر "ہاہا" تحریر کریں نہ کہ "ہی ہی " اور مستورات "ہی ہی " البتہ بحیثیت الفاظ یہ تینوں مؤنث ہیں اس میں کسی کا اختلاف نہیں
نوٹ
"ہاہا" ، "ہی ہی " اور ہوہو کے مطلق استعمال کامیں بھی قائل ہوں لہذا اس کے مطلق استعمال پر دلیل دینے کا کوئی فائدہ نہیں البتہ اظفری صاحب کے شعر اور سنجوگ سے دلیل لینے میں اگر میں کسی خطا پرہوں تو اس کی نشاندہی پر ممنون رہوں گا
اس میں کوئی شک نہیں کہ ادیبوں کی ایک جماعت اسے بغیر تذکیر اور تانیث کی تخصیص کے لکھتے ہیں چنانچہ
تماشا میرے آگے میں مذکور ہے
امریکی "ہی ہی" کر کے ہنسنے لگا اس نے ایک سگریٹ بخش دیا پتا نہیں وہ قرض تھا یا امداد
اسی طرح انیس مراثی کا شعر ہے
گھبرا کے بولے شاہ کہ "ہا ہا" قسم نہ کھا
رستا ہے یاں سے رات بسے کا نجف کو جا
لیکن مرزا اظفری صاحب کے اس شعر کے بعد لگتا ہے کہ اس میں تذکیر اور تانیث کی تخصیص ہے شعر ملاحظہ کیجیے
لقے دو چار ساتھ جاتے تھے
کیسا کل رات "ہی ہی"" ہاہا" تھا
لقے (لقی) دو آدمیوں (مرد اور عورت) کے ملنے کی جگہ کو بھی کہاجاتاہے اور مطلق ملاقات کی جگہ بھی کہاجاتا ہے
اظفری صاحب کہہ رہے ہیں کہ ملاقات کی جگہ دو چار مل کر جایا کرتے تھے لیکن کل کچھ اور معاملہ تھا کیوں کہ کل" ہی ہی" (ہنسنے والی) تھی اور "ہا ہا"(ہنسنے والا) تھا ۔دوم مصرعے میں" تھی" کو محذوف مانا گیا
اس پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اظفری صاحب نے "ہاہا" کو مذکر ضرورت شعری کی وجہ سے لکھا ہے
کیوں کہ قافیہ "ہا" کا ہے اس کا جواب اور "ہاہا " سے تذکیر کی طرف اشارے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اول مصرعے میں "لقے"کا لفظ بتارہاہے کہ یہاں "ہی ہی " اور "ہا ہا" سے تذکیر اور تانیث کی طرف اشارہ مراد ہے۔
دوسری دلیل "ہاہا"سے تذکیر کی طرف اشارے پر "ہا ہا"کے بعد مذکر حرف "تھا"کا ذکر ہے ۔کیوں کہ "ہاہا"بحیثیت لفظ مؤنث ہے
اسی طرح سنجوگ میں مذکور ہے
خیال نہ آیا کسی بات کا اور دل نہ پسیجا اسی شوہر کا جس کو دن بھر ہاہا"( ہنسنا)" ہوہو"(ہنسنے والوں کے ساتھ ہنسنا ) اور رات بھر ہی ہی(ہنسنے والی بیوی کے ساتھ ) "ہاہا"( ہنسنا) کے سوا کوئی کام نہ تھا
اس مختصر سی بحث کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بعض ادیبوں نے "ہاہا" سے مذکر"ہی ہی " سے مؤنث اور "ہو ہو" سے مطلق جمع یعنی مذکر اور مؤنث کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اس لیے مرد احباب فورم پر "ہاہا" تحریر کریں نہ کہ "ہی ہی " اور مستورات "ہی ہی " البتہ بحیثیت الفاظ یہ تینوں مؤنث ہیں اس میں کسی کا اختلاف نہیں
نوٹ
"ہاہا" ، "ہی ہی " اور ہوہو کے مطلق استعمال کامیں بھی قائل ہوں لہذا اس کے مطلق استعمال پر دلیل دینے کا کوئی فائدہ نہیں البتہ اظفری صاحب کے شعر اور سنجوگ سے دلیل لینے میں اگر میں کسی خطا پرہوں تو اس کی نشاندہی پر ممنون رہوں گا
Previous thread
Next thread