پنجاب کے مشہور قانون داں چودھری شہاب الدین علامہ کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے ۔ ان کا رنگ کالا اور ڈیل ڈول بہت زیادہ تھا ۔ ایک روز وہ سیاہ سوٹ پہنے ہوئے اور سیاہ ٹائی لگائے کورٹ میں آئےتو اقبال نے انہیں سرتاپا سیاہ دیکھ کر کہا:
ایک دفعہ مرزا صاحب نے ایک دوست کو دسمبر1858کی آخری تاریخوں میں خط ارسال کیا۔ دوست نے جنوری1859کی پہلی یا دوسری تاریخ کو جواب لکھا مرزا صاحب ان کو لکھتے۔
’’دیکھو صاحب ! یہ باتیں ہم کو پسند نہیں۔1858کے خط کا جواب 1859میں بھیجتے ہو اور مزایہ کہ جب تم سے کہا جائے گا تو کہو گے کہ میں نے دوسرے ہی دن جواب لکھا تھا۔‘‘
زہرہ انصاری سے ایک بار مجاز نے حیات اللہ انصاری کا تعارف کرایا ۔ اس زمانے میں حیات اللہ انصاری صاحب ’’ہندوستان‘‘ کے ایڈیٹر تھے ۔
مجازنے کہا:
’’آپ’ہندوستان ‘ کے ایڈیٹر ہیں۔‘‘
زہرہ نے زوردے کر کہا
’’اچھا، آپ ہندوستان کے ایڈیٹر ہیں؟‘‘
مجاز کو موقع مل گیا بولے :’’اگر آپ کاتب سمجھ رہی تھیں تو یہ آپ کی بھول تھی۔‘‘
کسی مشاعرے میں مجاز اپنی غزل پڑھ رہے تھے ۔محفل پورے رنگ پر تھی اور سامعین خاموشی کے ساتھ کلام سن رہے تھے ۔ کہ اتنے میں کسی خاتون کی گود میں ان کا شیر خوار بچہ زور زور سے رونے لگا۔مجاز نے اپنی غزل کا شعرادھورا چھوڑتے ہوئے حیران ہوکر پوچھا۔’’بھئی!
مولانا چراغ حسن حسرت بے حد ذہین و فطین اخبار نویس ، شاعر ، ادیب و نقاد ہونے کے علاوہ اعلی پایہ کے زبان داں تھے ۔ ہر ایک کا مذاق اڑانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔ وہ ہفتہ وار ’’شیرازہ‘‘ شائع کرتے تھے۔ ایک بار جو شامت آئی تو حکیم یوسف حسن پر طنز کیا :
’’حکیم صاحب!اپنے پرچے کو بہتر بنائیے ۔ ذرا اس جانب تو جہ دیجئے ۔ کیوں اپنا وقت ضایع کررہے ہیں ۔۔۔‘‘
حکیم صاحب یہ پڑھ کر سیخ پا ہوگئے ۔ کس کی مجال تھی جو ان پر انگشت نمائی کرے حکیم صاحب نے جواب دیا :
’’حضرت مولانا‘پہلے اپنے گھر کی خبر لیجئے ‘ یہاں تو چراغ تلے اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔ آپ کا ’’شیرازہ ‘‘ نیوز ایجنٹوں کے ہاں سے سیدھے ردی کے بیوپاریوں کے ہاں پہنچ رہا ہے۔اللہ!’’شیرازہ‘‘ بکھرنے سے بچالیجئے ۔‘‘
شیرؔ رامپوری حضرت داغؔ دہلوی سے ملاقات کے لیے پہنچے تو وہ اپنے ماتحت سے گفتگو بھی کررہے تھے اور اپنے ایک شاگرد کو اپنی نئی غزل کے اشعار بھی لکھوا رہے تھے ۔ بشیر ؔ صاحب نے سخن گوئی کے اس طریقہ پر تعجب کا اظہار کیا تو داغؔ صاحب نے پوچھا ’’خاں صاحب آپ شعر کس طرح کہتے ہیں ؟ بشیرؔ صاحب نے بتایا کہ حقہ بھروا کر الگ تھلگ ایک کمرے میں لیٹ جاتا ہوں ۔ تڑپ تڑپ کر کروٹیں بدلتا ہوں، تب کوئی شعر موزوں ہوتا ہے ۔‘‘ یہ سن کر داغ مسکرائے اور بولے ’’بشیر صاحب! آپ شعر کہتے نہیں ، شعر جنتے ہیں۔‘‘
استاد نے طلباء کو بتا رکھا تھا کہ جب کسی چیز پر مضمون لکھنا ہو تو تین چیزوں کا خیال رکھو۔
۱۔ تمہید، یعنی اس چیز کی وضاحت جس پر مضمون لکھنا ہو۔
۲۔ فوائد ، پھر اس کے فائدے بیان کرو۔
۳۔ نقصانات،اور آخر میں اس کے نقصانات تحریر کرو۔
ایک طالب علم کو استاد کا یہ سبق حرف بحرف یاد تھا ۔ چنانچہ اس نے تمہید کے طور پر اتفاق کی معنویت پر چند جملے تحریر کئے ۔ پھر اس کے فائدے گنوائے اور مثال کے طور پر بوڑھے اور اس کے بیٹوں کی وہ کہانی لکھ دی جس میں بوڑھا اتفاق کی تلقین کرتے ہوئے بیٹوں کو تنکوں کا ایک گھٹا توڑنے کی ہدایت کرتا ہے ۔
جب اتفاق کے نقصانات لکھنے کا سوال پیدا ہوا تو اس نو عمر مضمون نگار کا قلم چند لمحوں کے لئے رک گیا۔وہ سوچ میں پڑگیا کہ کیا لکھے۔
آخر ایک دم اس کی تخلیقی رگ پھڑکی اور اس نے لکھنا شروع کیا ۔
’’جیسے ہر چیز کے فائدے اور نقصان ہوتے ہیں اسی طرح اتفاق کے بھی بعض نقصانات ہوتے ہیں، جیسے اتفاق سے دو موٹروں کی ٹکر ہوجاتی ہے ، یا اتفاق سے کوئی گاڑی پٹری سے اتر جاتی ہے اور اس طرح اتفاق سے بعض دفعہ بہت سا جانی اورمالی نقصان ہوجاتا ہے ۔‘‘
اور اتفاق سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کل کا وہ بچہ جس نے یہ مضمون تحریر کیا تھا بعد کا پنڈت ہری چند اخترتھا۔