عنبرین حسیب عنبر
:
ملا بھی زیست میں کیا رنج رہ گزار سے کم
سو اپنا شوق سفر بھی نہیں غبار سے کم
ترے فراق میں دل کا عجیب عالم ہے
نہ کچھ خمار سے بڑھ کر نہ کچھ خمار سے کم
ہنسی خوشی کی رفاقت کسی سے کیا چاہیں
یہاں تو ملتا نہیں کوئی غم گسار سے کم
وہ منتظر ہے یقیناً ہوائے سرسر کا
جو حبس ہو...
عنبرین حسیب عنبر
:
ہو گئی بات پرانی پھر بھی
یاد ہے مجھ کو زبانی پھر بھی
موجۂ غم نے تو دم توڑ دیا
رہ گیا آنکھ میں پانی پھر بھی
میں نے سوچا بھی نہیں تھا اس کو
ہو گئی شام سہانی پھر بھی
چشم نم نے اسے جاتے دیکھا
دل نے یہ بات نہ مانی پھر بھی
لوگ ارزاں ہوئے جاتے ہیں یہاں
بڑھتی جاتی ہے...
This site uses cookies to help personalise content, tailor your experience and to keep you logged in if you register.
By continuing to use this site, you are consenting to our use of cookies.
Sure, ad-blocking software does a great job at blocking ads, but it also blocks useful features of our website. For the best site experience please disable your AdBlocker.